Saturday, 7 October 2017

حصار.. امجد جاوید... قسط نمبر7


حصار
امجد جاوید
قسط نمبر7

”یہ کنواری لڑکی ، کیسے کروں گی ۔ کہاں سے تلاش کروں۔ خیر،ٹھیک ہے، میں کرتی ہوںبندو بست۔“وہ بے بسی سے بولی تو اس نے کہا
”جس دن یہ سب لے آﺅ گی ، اسی دن عمل شروع کر دوں گا۔دن کے وقت اس لڑکی پر اور رات کے وقت دریا میںکھڑے ہو کر عمل کرنا ہے ، تین دن میں کام، گارنٹی ہے۔“
”ٹھیک ہے ، اب میںچلتی ہوں۔ پر وہ بچی بے چاری ....“ وہ منمناتے ہوئے بولی
” کچھ نہیںہوتا ، کہا ہے نا ۔“ اس بار وہ رعب سے بولا تو پھوپھو کافی سارے نوٹ اس کے سامنے رکھ دئیے ۔ کرامت شاہ نے ان نوٹوں کی طرف دیکھ کر کہا 
” اٹھا لے یہ نوٹ ، اب ایک بار ہی لوں گا۔ لے جا یہ۔“
پھوپھو فاخرہ نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ وہ نوٹ پرس میں رکھ کر اٹھی اور واپس چلی گئی ۔ کرامت شاہ کے چہرے پر یوں خباثت بھری مسکان بکھر گئی جیسے صیاد اپنے شکار کر دیکھ کر مسکراتا ہے ۔ 
سورج ڈھلنے تک وہ واپس آگئی ۔ کوئی انہونی خبر نہ سننے پر وہ مطمئن ہو گئی ۔ شعیب بھی اپنے کمرے میں تھا۔رات کا کھانا کھا نے وہ سب اکھٹے ہوئے تب بھی کوئی بات نہ ہوئی تو اس نے سکون کا سانس لیا۔وہ تھوڑی دیر بیگم ثروت کے پاس بیٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آ گئی ۔ وہ بیڈ پر بیٹھی انتہائی پر یشان تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لوں گی ؟شعیب سے مانگوں تو سب پتہ چل جائے گا۔یہ میں وہیں سے لے لیتی ہوں،جہاں سے پہلے لیتی ہوں۔ یہ سوچ کر وہ کا فی حد تک مطمئن ہو گئی ۔ اس سے چڑھاوا چڑھ جائے گا، جو بھی لینا ہوگا وہ خود ہی لے لے گا۔ پھر ایک دم سے پریشان ہو کر سوچنے لگی ، لیکن یہ.... کنواری لڑکی.... یہ میںکہاں سے لاﺅںگی ؟ یہ کہیں رستے میںپڑی ہوئی ہیں۔یہ تو ناممکن بات ہے، بابا سے بات کروں گی ، خود ہی کر لے کہیں سے بندوبست، میںکہاں سے لاﺅں ۔ کہیںوہ .... انکار نہ کردے۔بات کر کے ہی دیکھتی ہوں اس سے۔ لیکن پہلے رقم کا تو بندو بست کرلوں۔ پیسہ پھینک کر کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔یہ سوچ کر وہ اطمینان سے اٹھی گئی۔
بیگم ثروت کے بیڈ روم میں ملجگا اندھیرا تھا ۔ پھوپھو فاخرہ گھبرائی ہوئی کمرے میںداخل ہو ئی۔ وہ ایک الماری کے پاس گئی۔ بڑی احتیاط سے کھولا اور اس میںسے چابیاں نکال لیں۔ پھر اس چابی سے الماری کھو ل لی۔ سامنے نوٹوں کی گڈیاں پڑی ہوتی تھیں۔ اس کے ساتھ زیوارت کے ڈبے بھی پڑے تھے ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر صرف نوٹوں کی چند گڈیاں اٹھائیں ۔انہیں اپنے آنچل میں چھپا کرتیزی سے وہ الماری بند کردی ۔ چابیاں واپس اسی جگہ پر رکھ کر اطمینان سے واپس چلی گئی۔
اگلی صبح پھوپھو فاخرہ کاریڈور میں بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی اتنے میں ایک جوان لڑکی گھر میں داخل ہوئی ۔ اگرچہ وہ اپنی حلئے سے ایک غریب لڑکی دکھائی دے رہی تھی ۔لیکن وہ کافی نکھری ہوئی اچھی لگ رہی تھی۔ وہ جیسے جیسے قریب آتی گئی ،پھوپھو اسے غور سے دیکھتی ہے ۔ اسے وہ لڑکی بلا کی حسین لگی۔ اس نے چشم تصور میں دیکھا تو ایک دم سے اس لڑکی کے کپڑے تبدیل ہوگئے ۔ کچھ میک اپ کیا ہوا ، بدلی ہوئی ، جیسے بہت ماڈرن سی لڑکی ہو ۔ یہ پھوپھو کی نگاہ کا کرشمہ تھا۔ اس نے تصور میں جو دیکھا تب پھوپھو فاخرہ کی آ نکھیںچمک گئیں۔ وہ مسکرا اٹھی۔اس کے چہرے پر مکاری آ گئی یہاں تک کہ اُس کے منہ سے ہلکے سے سرسراتے ہوئے نکلا 
”کنواری لڑکی!“
 وہ لڑکی آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی اس کے قریب آ گئی تھی ۔لڑکی نے جھجکتے ہوئے پھوپھو سے پوچھا
” جی ، بیگم ثروت صاحبہ سے ملنا ہے ۔“
” پر تم ہو کون ؟“ پھوپھو نے خود پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی بیگم ثروت اندر سے نکل آئی ، اس کی نگاہ جیسے ہی لڑکی پر پڑی تو اس نے پوچھا
”خیر ہے جو تیری اماں دو دن سے نہیںآ ئی ؟ اور آ ج تجھے بھیج دیا۔تم صفیہ کی بیٹی ہی ہو نا ؟“
” جی میں انہی کی بیٹی ہوں فرزانہ ۔دو دن سے اماں بیمار ہے ،اسی لئے وہ تو نہیں آئی .... ان کی جگہ میںآ گئی ہوں کام پر۔ان سے اٹھا ہی نہیں جا رہا ہے ۔“فرزانہ نے دھیمے لہجے میں جھجکتے ہوئے کہا
”کیا ہو گیا صفیہ کو ،کہیں زیادہ بیمارتو نہیںہے ، ڈاکٹر کودکھایا؟“بیگم ثروت نے تشویش سے پوچھا، وہ ایک دم سے پسیج گئی تھی ۔
”بس ایویں چار پائی سے لگ گئی ہے۔ہمارے محلے میں ڈاکٹر ہے ، اس سے لی تھی دوائی ۔“ وہ منمناتے ہوئے بولی
”فرزانہ ، سچ بتانا، وہ تیرا رشتہ جہاں ہو رہا تھا،کیا نام تھا اس کا ، ہاںاسلم، اس کا کیا بنا، وہ ہو گیا ؟“ بیگم ثروت نے پوچھا، گویا وہ صفیہ کی بیماری تک پہنچ گئی تھی 
”نہیں، اسی کا تو صدمہ لے کر بیٹھ گئی ہے اماں۔ وہ لوگ تو بڑا جہیز مانگتے ہیں۔“ فرزانہ نے بتایا
”پتہ ہے مجھے ، صفیہ نے بتایاتھا۔ میں نے تب بھی کہا تھا، اسلم کی ماں بڑی لالچی عورت ہے۔ یہ بیل منڈھے نہیںچڑھنے والی ۔پر ماں توماں ہے نا، کیا کرے بے چاری۔ کچھ نہیںکر سکتی ۔ “ بیگم ثروت نے بے بسی سے کہا
”اماںتو کام پہ آنا چاہتی تھی لیکن میں نے ہی نہیںآنے دیا۔ اب میںکر لوں گی گھروں کے کام ۔“فرزانہ نے کہا اور بات ہی بدل دی۔
”اچھا چل جا، سارا کام پڑا ہے کرنے والا، دو دن سے ۔“بیگم ثروت نے کہا
”جی، ٹھیک ہے ۔“فرزانہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور اندر چلی گئی ۔
 پھوپھوفاخرہ چائے پیتے ہوئے بہت کچھ سوچنے لگی ۔
ژ.... ژ.... ژ
سورج ڈھل گیا تھا ، جب فرزانہ اپنے گھر کے اکلوتے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی ماں صفیہ بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ جس طرح وہ صبح اسے چھوڑ کر گئی تھی ، اسی طرح اس کا سر بندھا ہوا تھا۔وہ اسی طرح حسرت بھری نگاہوں سے سے فرزانہ کو دیکھ رہی تھی۔ فرزانہ نے ہاتھ میںپکڑا ہوا شاپر بیگ ایک طرف رکھا اور بیٹھتے ہوئے اپنی ماں سے نرم لہجے میں پوچھا۔
”کیسی طبیعت ہے اماں، کچھ کھایا، دوا لی؟“ 
”میری چھوڑ۔ یہ بتا، کسی نے تجھے ڈانٹا تو نہیں؟کسی نے کوئی دوسری ماسی تو نہیںرکھ لی؟ تو نے کچھ کھایا؟“صفیہ نے کراہتے ہوئے پوچھا۔ اس کے لہجے میں سارے جہاں کا پیار اور بے بسی سمٹی ہوئی تھی ۔آخر ماں تھی ، بھلے غریب تھی ۔فرزانہ نے اپنی مانںکی طرف دیکھا، پھر اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولی
”نہیں اماں،نہیں، ایسا کچھ نہیںہوا ۔اب تم میری فکر کرنی چھوڑ دو۔میں سب گھروں میںکام کر لیاکروں گی۔بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاﺅ۔“
اس کے یوں کہنے پر صفیہ رودی ، پھر بڑی بے بسی میں بولی
”ہائے میری پھول سی بچی....میں نہیںچاہتی ، تم لوگوں کے گھروں میںکام کرو۔میںنے تجھے لاڈوں سے پالا۔ پر نصیب میںنجانے کیالکھا ہے۔کاش تیری شادی اسلم سے ہو جاتی اور تم اپنے گھر میں....“
 ”اماں اب چھوڑ بھی دے اُن کا خیال، جہاں میری شادی ہونا ہو گی ، ہو جائے گی ۔ نہیں تونہ سہی۔“فرزانہ دکھ بھرے لہجے میںکہا 
”رَبّ غریبوں کے گھروں میںبیٹیاں نہ دے۔اگر دے تو ان کا نصیب اچھا کردے۔یا پھر لڑکے والے اتنے لالچی نہ ہوں ،منہ بھر کے جہیز مانگتے ہیں۔“وہ روتے ہوئے بولی
”اماں مجھے لگتا ہے تُو سارا دن اکیلی پڑی یہی سوچتی رہی ہے۔جب انہوں نے انکار کر دیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔“ فرزانہ نے تلخی سے کہا
”اسلم بے چارہ تو اچھا ہے ،پر اس کی ماں کے دماغ میںاتنا لالچ بھر ہوا ہے ، خدا کی پناہ....“ صفیہ ہاتھ ملتے ہوئے بولی توفرزانہ نے اٹھتے ہوئے کہا
”بس کردے اماں،اب اٹھ کر کچھ کھا پی لے، میں لائی ہوں کھانا،پھر تمہیں دوا بھی دیتی ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ باہر کی جانب چلی گئی۔صفیہ سوچ میں ڈوبی دیوار سے لگ گئی ۔اس کے چہرے پر بے چارگی بھری دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ غربت بھی کیا شے ہے ، آنکھوں سے خواب چھیننے کے ساتھ ساتھ خوابوں کا خراج بھی لے جاتی ہے ۔اس نے غربت میں نہ صرف خود کو سنبھال کر رکھا تھا ، بلکہ کوشش کی تھی کہ بیٹی کو وہ عذاب نہ دیکھنے پڑیں ، جو اس نے دیکھے ہیں ۔مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا تھا ۔اسی صدمے نے اسے بستر پر ڈال دیا تھا ۔
فرزانہ بچپن ہی سے اسلم کی منگیتر تھی ۔دونوں کو علم تھا کہ ان کی شادی ہو گی ۔ یہ احساس ان کے ساتھ ہی پروان چڑھا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ قربت میں بدلتا گیا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کا خواب دیکھتے ہوئے جوان ہوئے ۔اسلم ایک اچھا لڑکا تھا ۔ اس نے خوب محنت کرکے تعلیم حاصل کی ۔ کوئی بہت بڑا عہدہ تو نہیں ایک محکمے میں کلرک بھرتی ہو گیا۔اسلم اور ا سکے گھر والوں کے دن پھرنے لگے ۔غربت میں جہاں تھوڑا بہت معاشی استحکام آ تا ہے ، وہاں خواب اور خواہشیں بھی سر اٹھانے لگتیں ہیں ۔ اسلم کی ماں کو تھوڑا سکھ نصیب ہوا تو اسے اپنے بیٹے کے لئے ارد گرد کئی ایسی لڑکیاں دکھائی دینے لگیں جو اپنے ساتھ ڈھیروں جہیز لا سکتی تھیں ۔اس کی سوچ بھی بدلنے لگی اور اس نے فرزانہ کی ماں کو صاف جواب دے دیا۔ اس کی نگاہ میں ایک ایسی لڑکی جچ گئی تھی جو نہ صرف بڑا جہیز لانے والی تھی بلکہ ایک مکان بھی اس لڑکی کے نام تھا ۔ان لوگوں کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی اسلم سے ہو جائے ۔ سو اسلم کی ماں انہی کے قصیدے گانے لگی تھی ۔ وہ یکسر بھول گئی کہ اسلم اور فرزانہ ایک دوسرے کے لئے کیا جذبات رکھتے ہیں۔
فرزانہ بھی اسی دنیا کی لڑکی تھی ۔جہاں اس نے اپنی مجبوریوں کو سمجھا ، وہاں وہ اپنی متوقع ساس کے رویے کو بھی سمجھ چکی تھی ۔ساری زندگی اس کی ماں نے دوسروں کے گھروں میں کام کیا تھا ۔اس نے اپنی مجبوری کو کمزوری نہیں بنایا اور محنت کرتی رہی مگر اتنا نہ بنا سکی کہ اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کر سکے ۔اسے اسلم سے تھوڑی بہت امید تھی کہ شاید وہ اپنی ماں کی خواہش کے بر عکس فیصلہ کرکے اسے اپنا لے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ۔اسلم نے اپنی ماں کی خواہش کو تسلیم کرلیا تھا۔ اس کی بات پکی ہوگئی تھی ۔ چند دن بعد ہی اس کی منگنی ہو نے والی تھی ۔ فرزانہ نے جب ہوش سنبھالا تھا، تن سے اپنے نام کے ساتھ اسلم ہی کا نام سنا تھا۔ بچپن کا یہ ساتھ جوانی میں آ کر محبت میں ڈھل چکا تھا۔ وہ پوری جان سے اسے محبت کرتی تھی ۔ اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ اس کی محبت میں جہیز ، پیسہ اور لالچ بھی آ ڑے آ جائے گا ۔یہ سوال اسے مار کر رکھ دیتے تھے کہ کیا اسلم اس سے محبت نہیں کرتا؟کیا وہ بھی لالچی ہے ؟ فرزانہ نے یہ ساری صورت حال کو سمجھ کر اسے اپنی قسمت کا فیصلہ سمجھا اور پھر خود فیصلہ کر لیا۔ وہ اپنی ماںکو سکون دینے کے لئے اس کی جگہ گھروں کے کام کرنے کو نکل پڑی تھی۔وہ لاشعوری طور پر اپنے آپ سے ، اپنی غربت سے اور لالچ سے انتقام لینے نکل پڑی تھی ۔وہ اپنی بے بسی سے بھی لڑنا چاہتی تھی جس نے اپنے مجبور محض بنا دیا تھا۔ 
اس رات تھک کر چُور ہو جانے کے باوجود اس کی آ نکھوں میں نیند نہیں اتر رہی تھی ۔ اس نے جو بہت سارے خواب دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہو چکے تھے ۔ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں اس کی آ نکھوں میں چبھ رہی تھی ۔ اسے یقین تھا کہ اندھیرے میں اس کی ماں اس کے آ نسو نہیں دیکھ پائے گی ۔
ژ.... ژ.... ژ
اس صبح چوہدی نذیر لاﺅنج میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا ۔ایسے میں بیگم الماس چائے کے دو مگ لائی ۔ ایک اس نے اپنے شوہر کو تھمایا اور دوسرا مگ پکڑ کر اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی ۔چوہدری نذیر نے اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھا اور مگ اٹھاتے ہوئے بولا
”بیگم کتنی شاپنگ کر لی ، کیا کیاتیاریاںکر لی ہیں شادی کی؟اب دن ہی کتنے رہ گئے محض پانچ دن ؟“
اس پر بیگم الماس چند لمحے خاموش رہی جیسے کوئی بھی بات کرنے کے لئے مناسب لفظ تلاش کر رہی ہو ۔ پھر بڑے دھیمے سے لہجے میںبولی 
”کیا کرنی ہیں شادی کی تیاریاں۔پتہ نہیںیہ ثانیہ کو ہو کیا گیا ہے۔ اس کا تو رویہ ہی بدل گیا ہے۔“
”کیا ہوا ؟“چوہدری نذیر نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
”میں نے آج جانا تھا ان کے ہاں، وہی ثانیہ کا ماپ لینے، میری خواہش تھی کہ اسے ساتھ لے جاﺅں، اور اس کی پسند کا خریدوں۔ ذیشان نے اسے فون کیا تو اس نے صاف انکار کردیا۔اب اس بات کو کیا سمجھیں؟“بیگم الماس نے الجھتے ہوئے لہجے میں کہا توچوہدری نذیر نے حیران ہو کرکہا
” اگر جلدی شادی کی خواہش تھی تو انہی کی طرف سے تھی ، اب بیٹی منع کر رہی ، اتنی ٹینشن لے رہی ہے، بیگم مجھے تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔اس سارے معاملے میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہے ، جو یہ لوگ ہم سے چھپا رہے ہیں ۔ورنہ عام طور پر ایسا ہوتا نہیں، فورا منگنی فورا شادی ، اور اب جبکہ سارا کچھ طے ہوگیا تو شادی سے گریز، تمہیں کیا لگتا ہے ؟“
”مجھے تو خود یہی محسوس ہوتا ہے۔اب ثانیہ دودھ پیتی بچی توہے نہیں ، جورشتے داری معاملات کو نہ سمجھے۔وقت اور حالات کی نزاکت کا خیال نہ کرے ۔“بیگم الماس نے یوں کہا جیسے وہ اس معاملے پر کافی پریشان ہو رہی ہو 
” مجھے نہیں لگتا وہ اتنی پاگل ہے ، مگر اس کا رویہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ وہ لوگ شعیب سے ڈر رہے ہیں ۔ لیکن ، جب سارا کچھ ہوگیا تو اب ان کا بلکہ ثانیہ کا رویہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔“ چوہدری نذیرنے شک زدہ لہجے میںکہا تو بیگم الماس اکتاتے ہوئے بولی 
”سچ پوچھیں تومجھے تو بہت برا لگا ہے۔ جس لڑکی کے اتنے لچھن اب ہیں، وہ بعد میںکیا کرے گی ۔“
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے بیگم،لیکن ایک بار اس کے ماں باپ سے تو بات کر لیں،وہ کیا کہتے ہیں۔“ انہوں نے کہا ور چائے کا سپ لے لیا
”بات چاہئے کر لیں، مگر اب میرا دل اس لڑکی کو نہیںچاہتا۔“ وہ بولیں
”خیر ایسی بھی کیا بات ہو گئی ، بات کر لیں ، پھر دیکھتے ہیں۔اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔ تم جانتی ہو ثانیہ اپنے ذیشان کی پسند ہے۔ یہ بات سمجھتی ہو نا۔ اس لئے جلد بازی نہیں کرنی ۔ “چوہدری نذیر نے سمجھاتے ہوئے کہا تو بیگم الماس نے سوچتے ہوئے کہا
” اسی وجہ سے تو میں اب تک خاموش ہوں ورنہ مجھے وہ لوگ اور خاص طور پر یہ ثانیہ اچھی نہیں لگی تھی ۔ میں تو کہہ رہی ہوں ۔ اگر اس لڑکی نے ایسا رویہ دکھایا،تو میں صاف انکار کر دوں گی ۔ آ پ کے بیٹے نے اس سے شادی کر نی ہوگی تو پھر کرتا رہے ، میری طرف سے صاف انکار ہے ۔“
” سمجھداری سے کام لیتے ہیں بیگم ، خود انکار نہ کرو۔ بلکہ ثانیہ کی بیماری ہی ایسا معاملہ ہے کہ وہ کچھ مزید وقت لیںگے ، مجھے لگتا ہے ۔ میں نے بھی لندن چلے جانا ہے ۔سو میرے واپس آ نے تک یہ شادی ٹال دیتے ہیں۔ اس دوران سب پتہ چل جائے گا کہ اصل میںمعاملہ کیا ہے ۔“ چوہدری نذیر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو بیگم الماس سر ہلا کر رہ گئی ، پھرچند لمحے سوچنے کے بعد بولی 
” چلیں ٹھیک ہے ۔ مجھے ان سے کسی قسم کی کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں، ذیشان جیسے کہے گا، ویسے ہی کرلیں گے ۔“ 
 ” ہاں ، یہی بہتر رہے گا ۔ اس شادی کو ٹالنے کے لئے میرے پاس لندن جانے کا ایک معقول بہانہ ہے ۔“چوہدری نذیر نے کہا اور اخبار اٹھاکر دیکھنے لگا۔ بیگم الماس وہیں بیٹھے چائے پیتی رہی اور ساتھ میں سوچتی بھی رہی کہ اسے اب کیا کرنا ہوگا۔
ژ.... ژ.... ژ
اس صبح پھوپھو ناشتہ کرتے ہی کاریڈور میں آ بیٹھی تھی ۔ وہ بڑی بے چین تھی ۔ اس کی نگاہیں گیٹ پر لگی ہوئیں تھیں۔شعیب اپنے آ فس جا چکا تھا ۔بیگم ثروت لاﺅنج میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی ۔دن کافی چڑھ آ یا تھا۔ ایسے میں فرزانہ گیٹ پار کر کے اندر آ ئی تو پھوپھو کی جان میں جان آ ئی ۔معمولی سے کپڑوں میں ملبوس فرزانہ کی جوانی چھپ نہیں رہی تھی ۔ یہی لڑکی اگر اچھے لباس میں ہو تو کیا غضب ڈھائے ۔ اس نے قریب آ کر پھوپھو کو سلام کیا تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی
” لگتا ہے تیری اماں ٹھیک نہیں ہوئی جو تم کام پر آ گئی ہو ؟“
” اب وہ ٹھیک ہو یا نہ ہو ، اب میں ہی کام پر آ یا کروں گی ۔“فرزانہ نے حسرت سے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ 
پھوپھو موقع کی تلاش میں تھی کہ کب فرزانہ سے بات کرے۔ وہ اسی تاک میں رہی ۔ اس وقت فرزانہ کچن کا کام ختم کر کے سستانے کو وہیں بیٹھی ہوئی تھی کہ پھوپھو اس کے پاس چلی گئی ۔ وہ اس کے ساتھ یونہی باتیں کرنے لگی ۔ یہاں تک بات سے بات نکال کر پھوپھو نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
” میں نے جب تیرے بارے میں تفصیل کے ساتھ ثروت سے سنا تو مجھے تم پر بڑا ترس آیا ۔لوگ کتنے لالچی ہوتے ہیں ۔ اپنے مفاد کے لئے پرانے رشتے تک بھول جاتے ہیں۔“
” پر کیا کریں ۔ ہم غریب لوگ کچھ بھی تو نہیں کر سکتے ۔“ فرزانہ نے حسرت سے کہا تو پھوپھو سارے جہان کا درد اپنے لہجے میں سموتے ہوئے بولی
” ایسا بھی نہیں ہے ،اگر بندہ تھوڑی سی ہمت کرے نا، تو اپنی تقدیر خود آ پ بدل سکتا ہے ۔“
”تقدیر تو تک بدلے نا ، جب ہماری قسمت ہمارے ساتھ ہو ، اس دنیا میں سب سے بڑا سچ دولت ہے ، میرے پاس آ ج دولت ہو تو سارے رشتے میرے پاس ہوں ۔میں جو چاہوں کروں ۔“ وہ تنک کر بولی 
”اگر ایسی بات ہے نا تومیںنے تیرے مسئلے کا حل ہے ۔“ پھوپھو نے اپنے لہجے میں سارے جہان کا درد سموتے ہوئے کہا توفرزانہ نے حیرت اور خوشی سے پوچھا 
” کیا ہے وہ حل ؟“
” بتا تو دوں تجھے لیکن اس میں سب سے بڑی شرط راز داری ہے ، ۔“پھوپھو نے محتاط انداز میں کہا
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *