کیمپس
آخری قسط
امجد جاوید
قسط نمبر۔۔19
وہ ایک روشن دن تھا۔ فرح آپی نے سارے انتظامات مکمل کر لیے تھے۔ اس نے ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین سے بات کرلی تھی۔ یہاں تک کہ وی سی کو بھی دعوت دے دی۔ وہ خود تو نہیں لیکن انہوں نے اپنا نمائندہ بھیجنے کی ہامی بھر لی۔ ہونا یہ تھا کہ میں ہاسٹل سے بارات لے کر ڈیپارٹمنٹ جاتا،جہاں نکاح ہونا تھا اور وہیں لان میں دعوت دی جانی تھی۔ بارات میں کوئی لڑکی نہیں اور ڈیپارٹمنٹ میں کوئی لڑکا نہیں، یہ شرط تھی۔ یہ لڑکیوں کے اپنے شغل تھے، جبکہ میں پریشان تھا کہ کاشف یا اس کے کسی ساتھی کی وجہ سے کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ اس کا ایک دوست رضوان جو کافی عرصے سے نظر نہیں آرہا تھا۔ ممکن ہے اس کے ذریعے وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے۔ اسے بخوبی علم تھا کہ میں نے اسے یرغمال کیوں بناکررکھا ہوا ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ ان لمحات میں تصادم سے بچنا چاہ رہا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہو جاتا، میں اسے دیکھ لیتا۔ میں اس ہاسٹل میں تھا، جہاں میں نے کاشف کو رکھا ہوا تھا۔ مذہبی تنظیم کے لوگوں نے پوری طرح تعاون کرنے کی یقین دہائی کروادی تھی۔ جس سے میں بہت حد تک مطمئن تھا۔ دوسری طرف پیر بخش تیار تھا اور باقاعدہ طور پر پریس کو وہاںشادی پر بلوایا ہوا تھا۔ بارات کے لیے جو وقت دیا گیا تھا، میں اس وقت اپنے محضوص دوستوں کو لے کر ڈیپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں لان میں اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ سجی سنوری لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔ کیٹرنگ کمپنی والوں نے پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ کیمپس ہے بلکہ یوں گمان ہو رہا تھا کہ جیسے ہم شادی ہال میں آگئے ہوں۔
پاپا.... ماما سمیت زریاب انکل اور آنٹی ، الماس ، ابان فروا۔ سبھی وہیں پر تھے۔ ہمارے پہنچتے ہی دلہن کو لے آیا گیا۔ دلہن بنی ماہم بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے چہرے پر حزن کی جو کیفیت تھی اس نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اسد سے رابطہ کر کے پوچھا کہ سب ٹھیک ہے نا۔ تو اس نے اطمینان بھرا جواب ہی دیا۔ ماہم میرے ساتھ بیٹھ گئی تھی اور نکاح خواں نے ایجاب وقبول کے لیے جملے کہنے شروع کر دیئے تھے۔ اس دوران میں نے فون پر اسلم چوہدری کے نمبر پش کر دیئے۔ چند لمحوں میں رابطہ ہو گیا۔ یقینا وہ نکاح ہو جانے کی بابت سن رہا تھا۔ کچھ لمحات کے بعد فون بند ہو گیا۔ خطبہ نکاح کے بعد دعا ہو گئی او ر فوراً ہی کھانا شروع ہو گیا۔
”زریاب انکل....! مجھے یہ خاموشی خطرے کا الارم لگ رہی ہے۔ پلیز آپ گھر والوں کو لے کر کسی محفوظ راستے سے نکل جائیں“۔ میں نے ان کے قریب جا کرکہا۔
”نہیں بیٹا....! گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں نے پورابندوبست کر لیا ہو ا ہے، یہاں کوئی بھی اپنی طاقت نہیں دکھا سکتا، بس کھانا ختم کریں اور نکلیں“۔ انہوں نے مجھے تسلی دی۔ کچھ ہی دیر بعد لڑکیوں نے ماہم کو میرے ساتھ رخصت کر کے گاڑی میں بٹھا دیا۔ اسد اور سلیم اسی موقعہ کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ میں ان کی سکیورٹی میں ماہم کو لے کر کیمپس سے نکل گیا۔
ماہم میرے ساتھ پسنجر سیٹ پر تھی اور میں گاڑی چلا رہا تھا ۔ وہ کسی بت کی طرح خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔ میری منزل زریاب انکل کا گھر تھا۔ تمام راستے میں پوری طرح چوکنا تھا۔ میرے دل میں نہ جانے یہ کھدبد کیوں ہو رہی تھی کہ کچھ ہو جانے والا ہے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا اور میں زریاب انکل کے گھر پہنچ گیا۔ جہاں گھر والے پہلے ہی سے موجود تھے۔ روایات کے مطابق دلہن کو جو مان اور سمان دیا جاتا ہے وہ وہاں پر دیا گیا۔ تبھی میں نے اسلم چوہدری کو فون کر دیا۔ اس نے میرا فون نہیں پک کیا۔ مگر میں کہاں باز آنے والا تھا۔ میں اسے فون کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرا فون اٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ بول اٹھا۔
”میں جانتا ہوں کہ تُو نے میری بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ یہی بتانا چاہتا ہے مجھے۔ بیٹی تو میں نے بیاہنی تھی لیکن اس طرح.... یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ اب تم اور تمہارا باپ جیسا چاہو، مجھ سے انتقام لے سکتے ہو“۔
”تمہیں صرف گولی مار دینے سے کچھ نہیں ہو گا، جب تک تمہاری سانس ہے۔ تمہیں اس وقت تک سزا ملے گی۔ میں بھی یہیں ہوں اور تم بھی یہیں ہو“۔
”تم اب میرے بیٹوں کے جیسے ہو۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے۔ تم جو چاہو مجھے قبول ہو گا۔ نفرت محبت سب کچھ“۔
”تم سیاست دان ہو مکر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے نہیںپھنساسکتے۔ جس اذیت سے میرے پاپا گزرے ہیں اس سے بخوبی واقف ہوں۔ اتنی ہی اذیت تمہیں دوں گا اور اب فریاد علی بھی میرے دشمنوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اس نے میرے دادا دادی کو قتل کیا تھا۔ میرا تو انتقام ہی اب شروع ہو گا“۔ میں نے غصے کی شدت سے کہاتو اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے خود کو نارمل کیااور پلٹ کر سب میں آبیٹھا۔ جہاں ہر طرف خوشیاں خوشیاںبکھری ہوئی تھیں۔
شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ میں ، پاپا اور زریاب انکل لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔زریاب انکل کا یہ خیال تھا کہ مجھے ابھی یہاں رہنا چاہئے۔ یہاں تک کہ اسلم چوہدری اور فریاد علی سے پوری طرح انتقام نہ لے لیا جائے۔ جبکہ پاپا کاخیال تھا کہ ایک دو دن میں ہم سب واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ اس وقت زریاب انکل نے صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ نوکری ختم کرتے ہی سیاست میں آجائیں گے اور ان کے حریف یہی لوگ ہوں گے۔ تب ابان کی بہت زیادہ ضرورت پڑے گی۔ دونوں نے مجھ دیر بحث کی اور پھر فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔
”دیکھو بیٹا....! کوئی لگی لپٹی مت رکھنا، میرا بزنس سنبھالو، اور مجھے سیاست کرنے دو، لیکن جو فیصلہ کرو بہت سوچ سمجھ کرکرو۔ تمہارا بھائی جو ابھی چھوٹاہے، اس کی تربیت کرو“۔
”زریاب یہ تم بالکل خود غرضی دکھا رہے ہو، بھئی میں وہاں پر کیا کروں گا“۔ پاپا نے تیزی سے کہا۔
”میں تجھے چھوٹا ابان دے رہا ہوں۔ تم اس کی تربیت کر لینا۔ تم نے کون سا سیاست کرنی ہے۔ میں تو یہاں مصروف ہو جاﺅں گا“۔ زریاب انکل نے دلیل دی۔
”نہ بھئی، اپنے اپنے بچے سنبھالو، اب مجھے وقت ملا ہے زندگی انجوائے کرنے کا اور تم پھر سے مجھے کولہو کا بیل بنا رہے ہو“۔ پاپا مان ہی نہیں رہے تھے۔
”اچھا یار....! اس پر ہم پھر بحث کر لیں گے۔ میں ولیمہ کر رہا ہوں دھوم دھام سے، کل رات، مینو بناﺅ کیا دینا ہے ولیمے میں“۔ زریاب نے ساری بحث سمیٹ کرنیا موضوع دے دیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ یونہی پاپا سے گپ شپ کر رہے تھے۔
”بھئی سب کی رائے لے لو.... میں اکیلا تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا“۔ پاپا نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تو پھر سب کو بلاتے ہیں“۔ زریاب نے کہا کچھ فاصلے پر کھڑے ملازم کو قریب آنے کااشارہ کیا۔ وہ آیاتو انکل نے سب کو بلانے کے لیے بھیج دیا۔ کچھ ہی دیر بعد سب باری باری وہاں پہنچ گئے اور منیو پر بحث ہونے لگی۔ تبھی آنٹی نے کہا۔
”بھئی سیدھی سی بات ہے، دعوت آپ دے رہے ہیں۔زریاب صاحب! مہمان بھی آپ نے بلانے ہیں۔ تو مینو کابھی آپ کو پتہ ہونا چاہئے۔ ہم تو آج آپ کو بہت اچھا ڈنر دے رہے ہیں۔ ماہم کے اعزاز میں“۔
اس سے پہلے کہ زریاب انکل یا کوئی دوسرا اس پر تبصرہ کرتا، ملازم نے قریب آ کر کہا۔
”صاحب....! باہر کوئی اسلم چوہدری آئے ہیں آپ سے ملنے کے لیے“۔
اس کا یوں کہنا تھا کہ ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ ماہم گھبرا کر اٹھ کھڑی ہو ئی۔ جبکہ زریاب انکل کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولے“۔
”اگر اس شخص نے ذرا سی بھی ٹیڑھی بات کی تو معاف نہیں کرنا“۔یہ کہہ کر اس نے ملازم سے پوچھا۔ ”کتنے لوگ ہیں اس کے ساتھ؟“
”کوئی بھی نہیں، وہ اکیلا ہے“۔
”بلاﺅ....! “زریاب انکل نے کہا تو ملازم چلا گیا۔ میں نے ماہم کے چہرے پر دیکھا، وہ پیلی زرد ہو رہی تھی۔ میں نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر دبا دیا۔ سبھی اسلم چوہدری کی آمد کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد وہ پیدل چلتا ہوا لان کے سرے پر آیا، اس نے سب کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا اور وہیں کھڑے ہاتھ جوڑ لیے اور سر نیچے کر لیا۔ اس وقت مجھے لگا کہ ماہم جذباتی ہو جائے گی لیکن وہ خاموش رہی۔ اسلم چوہدری ہاتھ جوڑے چلتا چلا آیا اور آتے ہی سیدھا پاپا کے پاﺅں میں گر کر اس کے پاﺅں پکڑ لیے۔
”میں تمہارا مجرم ہوں، میں نے چاہا تھا کہ میں امیر ہو جاﺅں اور میں نے وہ سب کچھ پالیا جو میری تمنا تھی لیکن ایک بھرا پُرا خوش کن خاندان نہیں پا سکا۔ ابان کہتا ہے کہ میں آخری سانس تک اذیت دوں گا۔ میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ہر پل اذیت سہی ہے۔ مجھے ایسی زندگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس مجھے معاف کر دو“۔
”تمہاری خواہش اور میری زندگی کے قیمتی سال.... کیسے معاف کر دوں تجھے۔ تُو تو ایسا سانپ ہے، جس نے اپنی بیٹی کو بھی اس کی خوشیاں نہ دیں۔ میرے ابان کو مار ڈالنا چاہا۔ میں تجھے معاف نہیں کر سکتا۔ پہلے میرے ماں باپ اور پھر میرا بیٹا....!“ یہ کہتے ہوئے پاپا اپنے پاﺅں سمیٹ لیے۔
”میں نے نہیں.... ابان کو میں نے نہیں مارنا چاہا اور نہ ہی تمہارے والدین کو میں نے کچھ کہا، میں نے کچھ کہا، میں تو ماہم کی ماں کے ساتھ اس وقت ہسپتال میں تھا۔ اسے تو فریاد علی.... نے....“ اس نے کہا اور بے بسی سے رو دیا۔
”تو بس پھر فیصلہ ہو گیا۔ میں تجھے معاف کر دوں گا۔ ابان بھی سب کچھ بھلا دے گا۔ اگر تم فریاد علی کو ختم کر دو“۔
پاپا نے انتہائی اذیت سے کہا۔ تو وہ چونک کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے حسرت سے ماہم کی طرف دیکھا اور رو دیا پھر بولا۔
”بہت کڑی آزمائش ڈال دی ہے“۔
”اب یہ مت کہنا اسلم چوہدری کہ میں فریاد علی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ جعلی پیر ہے اور اس کے مریدین کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، لوگوں کو بہت شعور آگیا ہے۔ تم اگر کچھ نہ کرسکے تو نہ سہی، میں نے بہر حال اس سے انتقام لینا ہے۔ وہ چاہے جتنا مرضی طاقتور ہو گیا ہو“۔
”مجھے معاف کر دو میرے بیٹے!“ اسلم نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
”پاپا نے شرط بتا دی ہے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس وقت تک تمہیں کچھ نہیں کہوں گا جب تک مجھے یہ یقین نہ ہو گیا کہ تم نے کوئی وار کیا ہے۔ تمہیں صرف اتنی مہلت دیتا ہوں کہ جب تک میں رچڈل نہیں چلا جاتا، اس وقت سے پہلے پہلے.... میں چلا گیا تو پھر تجھے بھی معافی نہیں .... اب جاﺅ“۔
”بیٹی....!“اس نے بے بسی سے دھاڑ مار کر روتے ہوئے کہا۔ ماہم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہوا تھا۔ اس پر اس نے مضبوطی سے مجھے پکڑ لیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کن جذباتی لمحات سے گزر رہی ہے۔ اس وقت میرے پیار کا میرے اعتماد ہی کالمس اسے مضبوط بنا سکتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ دھیرے دھیرے لرز رہی ہے۔
”پاپا، آپ جا سکتے ہیں، انکل نے جو شرط بتائی ہے، اسے پورا کریں تو میں آپ کی بیٹی.... ورنہ میں اپنے بہو ہونے کا مان کیوں ختم کروں....“یہ کہہ کر وہ سسک دی تھی۔
”زریاب پلیز....! مجھے یہ اعتماد دے دو کہ آپ مجھے معاف کر دیں گے تو میں“۔
”کیا تمہیں یقین نہیں آرہا ہے کہ ابان نے تمہیں کیا کہا ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ ہم ان کی بات نہیں ٹال سکتے۔ تم جاﺅ، حالانکہ اس در سے کوئی سوالی خالی نہیں گیا۔ مگر واپس جانا ہو گا۔ تمہارے اپنے ماضی کی وجہ سے“۔ زریاب انکل نے کہا تو پاپا انتہائی نفرت سے بولے۔
”اسلم چوہدری ....! کہہ دینا فریاد علی سے .... کہ میں اس کی حویلی کے پاس اپنا گھر دوبارہ تعمیر کروں گا۔ اس نے تو میرا ماضی مجھ سے چھین لیا تھا نا۔ اس کا میں مستقبل چھین لوں گا۔ مجھے معلوم ہے کہ تُو فریاد علی سے کچھ نہیں کہہ پائے گا، لیکن پیغام ضرور پہنچا دینا“۔
اسلم چوہدری پوری طرح مایوس ہو چکا تھا۔ اس نے حسرت سے سب کی طرف دیکھا اور ڈھیلے قدموں سے واپس جانے لگا۔ لان عبور کرنے سے پہلے اس نے پھر مڑ کر دیکھا کہ شاید کوئی اسے روک لے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تبھی ماما نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”آپ اسے معاف کر دیں۔ ہم نے یہاں رہنا تو نہیںہے، جو ہو چکا سو ہو چکا۔معاف کر دنیاا اﷲ کو بہت پسند ہے۔ چھوڑیں ختم کریں دشمنی، معاف کر دیں“۔
ان کے یوں کہنے پر سب نے ماما کی طرف دیکھا۔ پاپا ان کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ پھر بولے۔
”میں .... میں.... تو اسے انکار کر چکا ہوں۔ اب شاید نہیں“۔
”جاﺅ بیٹی....! ماہم جاﺅ.... اور اپنے پاپا کو لے آﺅ مجھے یقین ہے کہ سب انہیں معاف کر دیں گے جاﺅ“۔
ماہم نے حیرت سے ماما کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف.... میں اپنی ماں کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا۔ میں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ کیونکہ وہ اجازت طلب نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔ میرا عندیہ پاتے ہی وہ تیز آواز میں بولی۔
”پاپا....!“
وہ جو پہلے ہی اس امید پر دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہا تھا۔ ایک دم سے رک گیا۔
”جی بیٹا“۔
”پاپا، آپ کو انکل نے معاف کر دیا ہے“۔
یہ سنتے ہی وہ تیزی سے واپس پلٹا، اور پاپا کی طرف دیکھا۔ پاپا نے اسے گلے لگا لیا۔
”اب میں خود فریاد علی کو معاف نہیں کروں گا۔ کیونکہ میرا سب کچھ ابان علی کے لیے ہے یہ میرا داماد ہی نہیں میرا بیٹا بھی ہے“۔
”چل زیادہ مکالمہ بازی مت کر۔ آبیٹھ کچھ کھا پی لے“۔ زریاب انکل نے مسکراتے ہوئے کہا تو اسلم چوہدری گہری سنجیدگی سے بولا۔
”بیٹیوں کے گھر سے پانی بھی نہیں پینا چاہئے۔ میں معافی چاہتا ہوں“۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی ویسٹ کوٹ کے اندر ہاتھ ڈالا اور چند کاغذ نکال کر بولا۔ ”یہ میرے نام سب کچھ آج سے ابان اور ماہم کے نام ہے.... لو....“
”تمہیں تو معلوم ہی نہیں ابان کا اصل نام کیا ہے“۔ زریاب انکل نے کہا۔
”وہ جو پاسپورٹ پر ہے اور نکاح نامے پر لکھوایا ہے۔ میں اتنا بھی غافل نہیں ہوں یہ لو....“ انہوں نے وہ کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور بولا۔ ”اگر مجھے اس قابل سمجھیں تو کل ولیمے میں بلالیں“۔
یہ کہہ کروہ تیزی سے باہر کی طرف چلا گیا۔ میں نے کاغذ پر ایک نگاہ ڈالی، اس نے اپنی ساری جائیداد برابر کے ساتھ میرے اور ماہم کے نام کر دی تھی۔ میں نے وہ کاغذ زریاب انکل کو تھمایا اور ماہم کو لے کر اندر چلا گیا۔ اس کی دلجوئی بہر حال ضروری تھی۔ مجھے اپنے عقب سے قہقہہ سنائی دیا جس کی میں نے قطعاً کوئی پروا نہیں کی۔
No comments:
Post a Comment