Saturday, 14 October 2017

حصار ۔۔ امجد جاوید ۔ قسط نمبر 8


حصار
قسط نمبر 8
امجد جاوید

” کیسی راز داری ؟“ فرزانہ نے حیرت سے پوچھا
” دیکھ میں ایک ایسے پہنچے ہوئے بزرگ کو جانتی ہو جو پل بھر میں بگڑی سنوار دیتا ہے ۔اگر تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو تو جو چاہو سو کر سکتی ہو ۔“ پھوپھو نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” ایسا ہو جائے گا ، وہ تو بہت رقم مانگے گا، مفت میں تو وہ کچھ کرنے سے رہا۔“ فرزانہ نے اس کی بات سمجھتے ہوئے پوچھا
” اگر تھوڑے سے پیسوں میں تمہاری زندگی بن سکتی ہے تو خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ، میں دے دوں گی وہ ساری رقم جتنی بھی وہ مانگے گا ۔ایک بار آ زما لینے میں کیا حرج ہے؟“ پھوپھو نے کہہ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اسے چہرے سے رضامند لگی تو پھوپھو نے مزید کہا،”تم ایسا کرو، جن گھروں میں کام کرنا ہے ، کر لو ، پھر شام ہونے سے پہلے چلتے ہیں۔“
” ٹھیک ہے ۔“ فرزانہ مان گئی تو پھوپھو نے اطمینان کا سانس لیا۔
سہ پہر کا وقت تھا ، جب پھوپھومین روڈ پر آ گئی ۔اس نے دور ہی سے دیکھ لیا فرزانہ منتظر کھڑی تھی ۔ اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔وہ تیزتیز قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس جا پہنچی ۔اگلے چند منٹ میں انہوں نے ٹیکسی لی اور کرامت شاہ کے گھر کی جانب چل دیں۔
کرامت شاہ کے گھر میں اتنا رش نہیںتھا ۔ پھوپھو نے فون بھی کر دیا تھا۔ اس کے جاتے ہی وہاں موجود عورت نے اسے اندر جانے کا کہہ دیا ۔ پھوپھو فاخرہ نے فرزانہ کو ساتھ لیا اور کرامت شاہ کے اس پر اسرار کمرے میں داخل ہو گئی ۔ اگر بتیوںکی تیز بو نے فرزانہ کے حواس ایک لمحے کو مختل کر دئیے۔ کرامت شاہ کی نگاہ جیسے ہی فرزانہ پر پڑی ۔ اس کی آ نکھوں میں شیطانیت جاگ گئی ۔ وہ اسی لمحے ہونتوں میں بڑبراتے ہوئے کوئی منتر پڑھنے لگا ۔ وہ پڑھ چکاتو بڑی گھمبیر آ واز میں بولا
” بو ل کیا بات ہے ، کیا مسئلہ ہے ؟“
” یہ بچی بے چاری بہت دکھی ہے ، کنواری ہے، اس کی شادی کا مسئلہ ہے ۔ بہت غریب ہے بے چاری ۔“ پھوپھو نے اس کا مسئلہ بتاتے ہو ئے کرامت شاہ کو اشارہ دے دیاتو اکرامت شاہ کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ پھیل گئی ۔اس نے فرزانہ کو سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے کہا
”آج ہی اس کو ایسا اشارہ ملے گا ، جس سے یہ مطمئن ہو جائے گی کہ اس کا کام بن جائے گا ۔ لیکن جب تک میرا عمل پورا نہیںہوگا،اسے ہمارے پاس آ تے جاتے رہنا پڑے گا۔جب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی ، تب تک ۔“
” کیوں نہیں ، یہ آ ئے گی ، ضرور آ ئے گی ۔“ پھوپھو فاخرہ نے کہتے ہوئے فرزانہ کو ٹہوکا دیا تو وہ بھی تیزی سے بولی 
” جی میں آ تی رہوں گی ۔“ 
”اگر تجھے آ ج ہی اشارہ مل جائے تو کل تم اکیلی ہی میرے پاس آ نا ، یہ فاخرہ کو زحمت مت دینا۔“ کرامت شاہ نے کہا تو پھوپھو نے اطمینان کا سانس لیا ۔ اس نے کنواری لڑکی والی شرط پوری کر دی تھی ۔ پھوپھو نے اسے وقت اپنے پرس میں سے نوٹوں کی ایک گڈی نکالیاور کرامت شاہ کے سامنے رکھ دی ۔ دونوں ہی سمجھ رہے تھے یہ کس مقصد کے لئے دی جا رہی ہے ۔کرامت شاہ نے وہ نوٹوں کی گڈی کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھا اور اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیا۔ پھر اپنے قریب پڑے صندوق کو کھولا ، اس میں سے ایک پڑیا نکالی ، جسے اس نے کھولا اور زور زور سے نجانے کس زبان میں منتر پڑھنے لگا۔ کافی دیر تک ہلکان ہو جانے والے انداز میں جاپ کرتا رہا ۔ پھر خاموش ہو کر بولا
” اے لڑکی، یہ راکھ ہے ، بڑی خاص قسم کی راکھ ۔ اس کی ایک چٹکی سورج غروب ہونے سے پہلے جلتے ہوئے چولہے میں پھینک دینا۔ دیکھنا وہ آ ج رات ہی تم سے ملنے چلا آ ئے گا ۔مگر تم نے اس کی کوئی بات نہیں ماننی ۔ اسی طرح روزانہ یہ راکھ ایک چٹکی جلتی ہوئی آ گ میں پھینکتی رہنا۔ وہ تیرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتا رہے گا ۔اس وقت تک جب تک وہ تیری بات نہ مان لے ، یہی عمل کرتی رہنا۔“
” جی بابا جی ۔“فرزانہ نے اپنے اندر کے اضطراب کو چھپاتے ہوئے تیزی سے کہا توکرامت شاہ رعب دار لہجے بولا
” لیکن کل یہاں آ کر بتانا مت بھولنا کہ وہ تمہیں ملنے آ یا تھا یا نہیں؟“ 
” جی ٹھیک ہے ، میں آ جاﺅ ںگی ۔“ فرزانہ نے ہاں میں سرہلاتے ہوئے کہاتو کرامت شاہ نے انہیںاٹھنے کا اشارہ کر دیا ۔ جیسے ہی وہ دوازے سے باہر جانے لگیں تو اس نے پھوپھو کو آ واز دے کر روک لیا۔ فرزانہ دروازہ پار کر گئی تھی ۔ پھوپھو واپس پلٹ کر اس کے سامنے بیٹھ گئی تو اس نے کہا
”ٹھیک ہے ، تو اسے میرے پاس لے آ ئی ، تیرا اتنا ہی کام تھا ، میں آج ہی عمل کرتا ہوں ۔کل شام تک وہی ہو جائے گا جو تم چاہتی ہو ۔بے فکر ہوجا ، تو نے مجھے خوش کیا، میں تجھے خوش کردوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ خباثت سے ہنس دیا۔
” بس میرے شعیب کی خواہش پوری ہو جائے ۔“ پھوپھو نے حسرت سے کہا تو وہ بولا
” ہو گئی سمجھو ۔ جاﺅ اب کل شام کو دیکھنا ۔“
پھوپھو اٹھی اور باہر کی طرف چل دی ۔
سورج غروب ہونے میں تھوڑا سا وقت رہتا تھا جب فرزانہ اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔اس کی ماں ہنوز کمرے میں بستر پر پڑی تھی ۔اس نے ساتھ لایا ہوا کھانا گرم کرنے کے لئے چولہا جلا دیا۔چولہے میں آگ بھڑک اٹھی تو اس نے پڑیا کھول کر اس میں سے ایک چٹکی راکھ جلتی ہوئی آگ میں پھینک دی ۔
فرزانہ چولہے میں راکھ کی چٹکی ڈال کر آگ کو تکتی رہی پھر ایک طویل سانس لے کر اٹھ گئی۔اس نے اپنی ماں کے سامنے کھانا رکھا اور خود بھی پاس آکربیٹھ گئی۔اس نے سارے دن کی روداد اپنی ماں کو سناتے ہوئے کرامت شاہ کے ہاں جانے کا ذکر ہی نہیں کیا۔وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے اپنی ماں سے کرامت شاہ کے پاس جانے کا ذکر کیا تو وہ سو طرح کے سوال کرے گی ۔ جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیںتھا۔وہ اپنی ماں کو ایک نئی طرح کی فکر نہیں دینا چاہتی تھی ۔کبھی کبھار اس کی ماں اکثر یہ خواہش کرتی رہتی تھی کہ کاش ایسا کوئی جادو ہو جائے کہ اس کی بیٹی کسی اچھے گھر کی بہو بن جائے ۔ فرزانہ نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر کرامت شاہ کی کوئی کرامت اس کے سامنے آ گئی اور جو وہ چاہتی ہے ویسا ہوگیا تو اپنی ماں کو بتا دے گی ۔ وقت سے پہلے بتا دینے کا کیا فائدہ ؟سورج غروب ہو گیا تھا ۔ وہ اپنی ماں کو کھانے دینے کے بعد دوا پلا کر بستر پر جا لیٹی تھی ۔ آج اس کی تھکن کل کی نسبت کم تھی لیکن وہ ذہنی طور پر بہت بے چین تھی ۔وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ جو کچھ کرامت شاہ نے کہا ہے کیا ایسا ہونا ممکن ہے ؟ یہ کیسے ہوگا؟ یہی سوچتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی۔
اس کی آنکھ ماں کی آواز پر کھلی ۔وہ ہڑبڑا کر ٹھ بیٹھی 
” کیا ہے اماں ؟“ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے پوچھا
”باہر کوئی دروازے پر ہے ، دیکھ کون ہے اس وقت ۔“ اماں نے اسے کہا تو ایسے میں دروزے پر دستک ہوئی ۔ایک خیال اس کے ذہن میں لہرا گیا۔وہ اٹھ کر دروازے تک گئی اور پوچھا
” کون ہے ؟“
” میں ہوں اسلم ، دروازہ کھولو۔“ دوسری طرف سے جیسے ہی یہ کہا گیا تو فرزانہ کی حیرت انتہا کو چھونے لگی ۔ اس کا من خوشی سے بھر گیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا ہو جائے گا ۔ اس نے لمحوںمیں خود پر قابو پایا اور دروازہ کھول دیا۔ اس کے سامنے اسلم کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر کافی حد تک سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی ۔ تبھی فرزانہ نے پوچھا
” اسلم ، اتنی رات گئے ، خیریت تو ہے نا؟“
” ہاں ، ابھی اتنی رات بھی نہیں ہوئی ،میں تم سے بات کرنے آ یا ہوں ۔“
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی، کمرے میں سے اس کی ماں کی آواز ابھری 
” کون ہے باہر ؟“
”چل اندر چل ۔“ اسلم نے کہا اور دروازہ پار کرکے صحن میں آ گیا۔وہ آگے آ گے چلتا ہوا کمرہ میں چلا گیا۔اس کی ماں اسلم کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ وہ ایک دوسری چارپائی پر بیٹھ کر دھیمے سے بولا،” کیسی طبیعت ہے خالہ ؟“
” بس ٹھیک ہوں پتر ، تم سناﺅ ، تیرا کام ٹھیک چل رہا ہے ؟“
” ہاں خالہ سب ٹھیک ہے ۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولا
” کیسے آ نا ہوا پتر؟“ اماںنے پوچھا تو وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا
” میں نے سنا ہے کہ یہ فرزانہ اب تمہاری جگہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے جا رہی ہے ، کیا میںنے ٹھیک سنا ہے ؟“
اس سے پہلے کہ اماں جواب دیتی ، فرزانہ نے تیزی سے تلخ لہجے میں کہا
” ہاں ، میں جاتی ہوں اب ، میرا باپ یا بھائی نہیںہے جو کما کر لائے ۔ ہمیں اپنی روزی روٹی کے لئے خود کمانا ہے ۔کوئی ہمیں گھر بیٹھے نہیں دے کر جائے گا ۔میری ماں بیمار ہے ، اس کی دوا کون لائے گا ۔اس لئے مجھے کام تو کرنا ہی پڑے گا نا۔“
” ٹھیک ہے میں مانتا ہوں ،لیکن کل سے تم کام پر نہیں جاﺅ گی ۔تم لوگوں کا جتنا ماہانہ خرچ ہے مجھے بتاﺅ ۔وہ میں دوں گا۔“ اس نے حتمی لہجے میں کہا
”لیکن کس ناطے سے ؟“ فرزانہ نے تلخ لہجے میں طنزیہ کہا
” کوئی ناطہ بھی سمجھ لو ۔مگر تم کام نہیں کرو گی ۔“ وہ سنجیدگی سے بولا
”اور جس دن تمہاری اماں کو پتہ چل گیا تو وہ ہمارا جینا حرام کردے گی ، اگلے پچھلے سارے پیسے نکلوا کر دم لے گی ۔نہیں ہمیں ایسے پیسے نہیں چاہئیں ۔“ فرزانہ نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ تیزی سے بولا
”دیکھو، میں بہت سوچ کر یہاں آ یا ہوں ۔مجھے انکار مت کرو ۔“
”اسلم ، جب تیرا ہمارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ، کوئی ناطہ نہیں تو ہم کیسے تمہاری یہ بھیک قبول کر لیں۔“ اس نے جواب دیتے ہوئے کہا
”ممکن ہے ، ایسا بھی ہو جائے ، مجھے کوئی موقعہ تو دو ۔“ اسلم نے آہستگی سے کہا تو اماں ایک دم سے پسیج گئی ۔اسے لگا کہ جیسے اسلم لوٹ آ یا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے بولی 
” مان لو اسلم کی بات ، وہ بے چارہ ....“
” نہیں اماں ، جس بندے کی اپنی کوئی رائے نہیں، جس کا اپنا کوئی فیصلہ نہیں، ہم اس کی بات کیسے مان لیں ۔ہاں اگر یہ کوئی ایسا تعلق جوڑتا ہے ، جس سے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے تو ٹھیک ہے ۔ ورنہ ہمیں تو اپنی روٹی خود کما کر لانی ہے ۔“ فرزانہ نے دوتوک انداز میں کہا تو اسلم کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا پھر اٹھتے ہوئے بولا
” سوچ لو فرزانہ ، ابھی ہمارے درمیان کوئی اتنا زیادہ فاصلہ نہیںہے ۔“
” یہ فاصلہ بھی تم نے ہی ختم کرنا ہے ،کیونکہ یہ فاصلہ تم لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے ۔ جس دن یہ فاصلہ ختم کردو گے میں تمہاری بات مان لوں گی ۔“ فرزانہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا 
” ٹھیک ہے ، بہت جلد یہ سب ہو جائے گا ۔“ اسلم نے کہا اور باہر نکلتا چلا گیا۔فرزانہ جب دروازہ لگانے گئی تو اسلم گلی میں جا چکا تھا۔ اس رات فرزانہ کے خواب پھر سے رنگین ہو گئے ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا بھی ممکن ہے ۔ اسے کرامت شاہ پر رشک آ نے لگا تھا ۔جس نے انہونی کو ہونی بنا دیا تھا۔
اگلی صبح جب وہ بیگم ثروت کے ہاں گئی تو پھوپھو فاخرہ کاریڈور میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی ۔ فرزانہ اس کے پاس جا بیٹھی ۔
” بتا کوئی بات بنی ؟“ پھوپھو نے ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے پوچھا
” بات کیا بنی پھوپھو، یہ توچمتکار ہو گیا ہے ، وہ رات آ گیا تھا ہمارے گھر ۔“ یہ کہہ کر فرزانہ نے حیرت زدہ انداز میں ساری روداد سنا دی ۔جسے سنتے ہوئے پھوپھو کی آ نکھیں پھیلتی چلی گئیں ۔سب کچھ سن لینے کے بعد پھوپھو نے فرزانہ کو ڈرا دینے والے انداز میں سمجھایا 
”دیکھو، اب سارے گھروں میں اپنے کام ختم کرنے کے بعد سیدھی کرامت شاہ کے پاس چلی جانا۔ جس طرح تو نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ ویسے ہی کرنا،ورنہ سیدھا ہوتا ہوا کام کہیں الٹا ہی نہ پڑ جائے ۔“
” ہاں ، پھوپھو یہ تم ٹھیک کہتی ہو۔ چل ٹھیک ہے ، میں وہیں مین روڈ پر آ پ کا انتظار کروں گی ۔“ فرزانہ نے کہا توپھوپھو بولیں
”نہ ، نہ، میںنے اب تمہارے ساتھ نہیںجانا۔ کسی کو بھی شک پڑ سکتا ہے ۔سب کیا کرایا ختم ہو جائے گا ۔میںنے تجھے کرامت شاہ سے ملا دیا،یہی بہت ہے ۔ ہاں ، تجھے رکشے ٹیکسی کا کرایہ دے دیا کروں گی ، وہ لے لینا مجھ سے ۔“
” ہاں پھوپھو ، یہ بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو ، میں چلی جاﺅں گی ۔“ فرزانہ نے جھٹ سے کہا تو پھوپھو نے اطمینان کا سانس لیا ۔اب وہ جانے اور کرامت شاہ ۔ اسے تو بس اب یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ ذیشان اور ثانیہ کی شادی میں بس چار دن باقی رہ گئے تھے ۔لیکن ابھی تک کوئی ایسی بات نہیںہوئی تھی جس سے یہ اندازہ ہوجاتا کہ ان کی شادی نہیں ہو رہی ۔
فرزانہ نے سہ پہر ہونے تک سارے گھروں کے کام ختم کر لئے ۔ وہ سیدھی مین روڈ پر آ ئی ، وہاں سے اس نے رکشہ لیا اور سیدھی کرامت شاہ کے گھر جا پہنچی ۔فوراً ہی اسے اندر بلا لیا گیا ، جہاں کرامت شاہ اکیلا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی کرامت شاہ کے ہونٹوں پر خباثت پھیل گئی ۔اس نے بھوکی نگاہوں سے فرزانہ کو دیکھا اور اپنے سامنے بیٹھ جانے کو اشارہ کیا۔کچھ دیر تک وہ جن نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا ، فرزانہ اس کا مطلب خوب سمجھ گئی تھی ۔وہ خاموش بیٹھی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ بولا
”ہاں بولو، وہ آ یا تھا؟“
’ ’جی ، بالکل ، وہ آیا ،مجھے تویقین ہی نہیں ہوا ۔“ وہ دبے دبے لہجے میں بولی تو کرامت شاہ ایک قہقہ لگا کر بولا
”وہ تم سے شادی کرے گا ۔جو چاہو گی وہی کرے گا ۔ اس کی ماں اگر تیرے راستے کی رکاوٹ بنی تو اسے مار دیں گے ۔تو کسی قسم کی فکر نہ کر ، بس ایک چھوٹا سا کام کر دے ہمارا۔تیرا کام بھی ہو جائے گا اور ہمارا بھی ۔“
” آپ کا کیا کام ہے بابا؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
”ایک عمل کرنا ہے۔اس میں تجھے سامنے بٹھانا ہے ۔ہمارا کام تو ہو ہی جائے گا ،لیکن تیری طاقت کتنی بڑھ جائے گی تو اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ۔جو تم کہو گی ، وہ سب مانتا چلا جائے گا ۔ہتھیلی پر سرسوں جما دوں گا۔“ کرامت شاہ نے اس کی طرف بھوکی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا
”یہ کب ہوگا عمل ؟“اس نے پھر ڈرتے ہوئے پوچھا
”یہ اماوس کی راتیں ہیں۔انہی دنوں میں ہوگا وہ عمل ۔تجھے ایک رات میرے پاس رہنا ہوگا۔اسی رات عمل مکمل ہو جائے گا ۔“اس نے اپنی سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑتے ہوئے کہا
”میں رات باہر کیسے رہ سکتی ہوں ؟“اس نے حیرت سے پوچھا
” اب یہ تمہارا کام ہے ۔کل اور پرسوں صرف دو راتیں ہیں تمہارے پاس ،آجاﺅ ، سب کچھ تمہاری مرضی کا ہو جائے گا ۔“ اس بار کرامت شاہ نے بڑے گھمبیر لہجے میں کہا تھا ۔
” ٹھیک ہے ، میں سوچتی ہوں ۔“اس نے ڈرتے ہوئے کہاتو کرامت شاہ نے اسے جانے کا اشارہ کردیا ۔ وہ اٹھی اور تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی ۔
٭....٭....٭
 شام کے سائے پھیل رہے تھے ۔مراد علی گھر واپس لوٹ آ یا تھا۔وہ ایزی ہو کر لاﺅنج میں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ بیگم طلعت اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔ چند لمحے پہلو بدلتے رہنے کے بعد وہ دھیمے سے لہجے میں بولی 
”ثانیہ کی شادی کو صرف چار دن رہ گئے ہیں۔لیکن کوئی تیاری نہیں ہوئی ۔نہ کوئی کپڑا خریدا ہے ، نہ کسی قسم کی کوئی چیز لائے ہیں جو ہم اپنی بیٹی کو دیں گے ۔شادی والے گھر میں اس قدر سناٹاہے ۔ میرا تو جی گھبرا رہا ہے ۔کیا ہوگا ، کیسے ہوگا یہ سب ؟“
” بیگم ، تمہیں بھی پتہ ہے ثانیہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی ۔میں نے ڈاکٹر ظہیر سے کافی تفصیل سے بات ہوئی ہے ۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ ثانیہ نے ذہنی طور پر اس شادی کو قبول ہی نہیںکیا ہے ۔اگر یہ شادی ہو بھی جاتی ہے تو ثانیہ اسے بہت عرصہ تک قبول ہی نہیں کر پائے گی ۔“ مراد علی نے کہا تو بیگم طلعت نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
” میری بیٹی ، نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے اسے ، اچھی بھلی تھی ، یہ کیا ہوگاہے اسے ۔“ 
” جہاں تک نظر لگنے کی بات ہے ، وہ تمہاری بہن ہی ہو سکتی ہے ۔جس کو ہماری خوشیاں ایک آ نکھ نہیںبھاتی، اور اس کا بیٹا جو بات بات پر لڑنے مرنے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ بہت ممکن ہے ثانیہ نے اس کا بھی اثر لیا ہو ۔مجھے پتہ ہے تمہیں میری باتیں بہت بری لگ رہی ہوں گی لیکن حقیقت یہی ہے ۔“ مراد علی نے زہر خند لہجے میں کہا تو بیگم طلعت نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
”میری بہن تو خود بے چاری اس کی صحت کے لئے دعائیں مانگ رہی ہے ۔ اسے بالکل بھی اعتراض نہیں ہے کہ ہم ثانیہ کی شادی کہاں کر رہے ہیں ، خیر چھوڑیں اس بات کو ،کیا کیا ہے اب تک آ پ نے کچھ مجھے بھی تو بتائیں ۔“
”دیکھو بیگم ، میںنے شہر کے مشہور ہوٹل میں ہال بک کروا لیا ہے ، جتنے بھی مہمان ہوں گے ، وہیں آ جائیں گے ۔کل بیگم الماس ثانیہ کو ساتھ لے جا کر اس کا جوڑا پسند کروا لائے گی ، تم بھی ساتھ چلے جانا، جو بھی شاپنگ کرنا ہو کر لینا۔ باقی رہی جہیز کی بات تو میں نے ایک معقول رقم ثانیہ کے اکاﺅنٹ میں ڈال دی ہے ۔شادی کے بعد جو چاہے وہ خرید سکتی ہے ۔“ مراد علی نے سکون سے کہا تو بیگم طلعت کو کچھ ڈھارس بندھی ۔مگر اس کے چہرے پر سے پریشانی پھر بھی ظاہر ہو رہی تھی ۔وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی 
” لیکن بیگم الماس نے تو آ ج آ نا تھا، میں اس کا انتظار بھی کرتی رہی ہوں ۔انہوں نے کوئی فون بھی نہیں کیا مجھے ، کیا آ پ کو کال کرکے انہوں نے کل آ نے کا بتایا؟“ 
”ہاں ، مجھے چوہدری صاحب کا فون آ یا تھا، “
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *