Friday, 6 October 2017

کیمپس۔۔۔ امجد جاوید۔۔۔ قسط نمبر18

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر18
اس شام آسمان پر گہرے سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے۔ پایا، ماما اور الماس پاکستان پہنچنے والے تھے۔ جبکہ میں ہسپتال کے کاریڈور میں بیساکھی کے سہارے کھڑا تھا۔ میرا دل بہت زیادہ تنگ تھا۔ رونے کو بہت جی چاہا رہا تھا۔ میرے ذہن میں صرف اور صرف یہی خیال آرہا تھا کہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر پاپا اور ماما کیا محسوس کریں گے۔ بلاشبہ میری اس حالت کا وہ خود کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے ، میرے پاکستان آنے کی اجازت دینے پر خود کو کوسیں گے۔ شرمندگی محسوس کریں گے اور ممکن ہے مجھے میرے مقصد کو ادھورا چھوڑ دینے پر مجبور کر دیں۔ میں اگر تندرست ہوتا تو نازک ترین لمحات نہیں آنے تھے۔ میں نے خود پر ایک نگاہ ڈالی تو مجھے وہ بیساکھیاںبہت بری محسوس ہوئیں۔ میں نے ایک دم سے انہیں خود سے الگ کر دیا۔ اس وقت میں خود پر حیران رہ گیا جب میں خود چل کر اپنے بیڈ تک جا پہنچا، شاید لاشعوری طور پر میں نے خود کو کچھ زیادہ ہی بیمار محسوس کرلیا تھا۔ نہ جانے اس وقت میرے اندر کیسے جذبات تھے۔ میں بیڈ سے اٹھا اور پھر چند قدم چل کر کاریڈور میں آگیا۔ کچھ دیر بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میں کسی بھی سہارے کے بغیر اپنے قدموں پر چل سکتا ہوں۔ میں نے فون اٹھایا اور سب سے پہلے یہ مژدہ فرح آپی کو سنایا۔
”دیکھو تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو میرے ساتھ“۔
”آپ خود آ کر دیکھ لو....“ میں نے وضاحت کرنے کی بجائے انہیں پیشکش کر دی۔
”اوکے....! میں آرہی ہوں۔ اگر جھوٹ ہوا تو بہت ماروں گی“۔ انہوں نے خوشی سے لبریز لہجے میں مصنوعی خفگی سے کہا۔
”میں انتظار کر رہا ہوں“۔ میں نے مزید کچھ کہنے کی بجائے فون بند کر دیا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں فرح آپی کے ساتھ فروا، ابان اور زریاب انکل آگئے۔ انہیں ایک ساتھ دیکھ کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی۔ ان لمحات میں مجھے لگا کہ جیسے میں تنہا نہیں ہوں۔
”بھائی ، یہ کیسے ہو گیا“۔ فروا نے پوچھا تو زریاب انکل نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”وِل پاور بیٹا، اور جہاں تک مجھے گمان ہے اس نے اپنے پاپا کے بارے میں سوچا ہو گا؟“
”آپ ٹھیک کہتے ہیں انکل.... میں نے انہی کے بارے میں سوچا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر کیا سوچیں گے“۔ میں نے بے بسی سے کہا۔
”کچھ بھی نہیں سوچنا انہوں نے.... میں نے انہیں پہلے ہی ہر بات بتا دی ہے اور تقریباً روزانہ ان سے بات ہوتی ہے اور تمہارے بارے میں ایک ایک بات انہیں معلوم ہے۔ اس لیے تو آج کل وہ تم سے بات نہیں کر رہے کہ تم کچھ زیادہ ہی محسوس نہ کرو“۔ زریاب انکل نے مجھے تفصیل سے بتایا تو میں کچھ دیر تک ان کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ تب انہوں نے نہایت شفقت سے مجھے کہا۔
”اچھا تم ایسا کرو، اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرو، میں نے ہسپتال والوں سے بات کرلی ہے، وہ تمہیں ڈسچارج کر دیں گے“۔ 
”میں سلیم کو بلا لیتا ہوں، وہ یہ سارا سامان لے جائے گا“۔
”میں نے اسے کال کر دی ہے، وہ آتا ہی ہو گا“۔ زریاب انکل نے کہا تو میں نے اپنی کچھ مخصوص چیزیں اٹھالیں۔ اتنے میں وہاں سلیم آگیا۔ میں اپنے قدموں پر چلتا ہوا گاڑی میں جا بیٹھا۔ جب ڈرائیور نے گاڑی بڑھائی تو زریاب انکل بولے۔
”اب فرح....! تم اپنے بھائی کی جتنی خدمت چاہے کر لینا۔ اب یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا“۔
”نہیں انکل....! ابھی میں کچھ دنوں تک سبزہ زار ہی میں رہوں گا۔ جب تک کہ میرا مقصد پورا نہیں ہو جاتا“۔ میں نے تیزی سے کہا ۔
”نہیں بھائی....! اب سکیورٹی کا خدشہ زیادہ ہے“۔ فروا نے جلدی سے کہا۔
”سبزہ زار اب محفوظ جگہ نہیں رہی“۔ ابان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
”اور انکل آنٹی اور الماس بھی تو ادھر ہمارے پاس ہوں گے “۔ فروا نے بتایا۔
”میں وہاں آپ کے پاس روزانہ آجایا کروں گا، لیکن میں رہوں گا سبزہ زار ہی میں“۔ میں اپنی بات پر اَڑ گیا۔
”ٹھیک ہے، تم وہیں رہنا“۔ زریاب انکل نے کہا تو پھر خاموشی چھا گئی۔ کوئی بھی اس موضوع پر نہیں بولا۔ یہاں تک کہ ہم گھر تک آن پہنچے۔ جہاں آنٹی نے بالکل ماﺅں کے سے انداز میں مجھے خوش آمدید کہا۔ جس سے مجھے بڑا سکون ملا۔
شام ڈھلتے ہی ہم سب تین گاڑیوں میں ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ جو چند مہینے میں نے اپنے والدین سے دور رہ کر گزارے تھے، یہ دور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بہت طویل مدت ہو۔ میں جذباتی لمحات کے زیر اثر ائیرپورٹ کی طرف جارہا تھا اور میرے ساتھ زریاب انکل کی فیملی تھی۔ اس وقت شہر کے برقی قمقمے جگمگا اٹھے تھے جب ہم ائیر پورٹ پہنچے۔ جہاز اس وقت تک لینڈ کر چکا تھا۔ کچھ دیر ہی انتظار میں گزرے ہوں گے کہ پاپا کے ساتھ ماما اورالماس آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وہ بے تابی سے اِدھر اُدھردیکھ رہے تھے اور میں نے واضح طور پر محسوس کیا تھا جیسے ہی ان کی نگاہ مجھ پر پڑی ایک خوشگوار حیرت ان کے چہروں پر پھیل گئی۔ نہ جانے انہوں نے میرے بارے میں کیا سوچا ہو گا۔
تاہم تندرست حالت میں ائیر پورٹ پر ان کا منتظر کھڑا دیکھ کر انہیں جو اطمینان ملا ہو گا، میں اس کا بخوبی احساس کر سکتا تھا۔ ملنے ملانے کا وہ جذباتی منظر دیدنی تھا۔ ہم وہاں سامان آجانے تک ٹھہرے اور پھر گھر کی طرف چل پڑے۔
پُرتکلف ڈنر کے بعد باتوں کا سلسلہ دراز ہو گیا۔ الماس میرے ساتھ ہی جڑ کر بیٹھی ہوئی تھی اور گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی سوال کرلیتی ہے۔ زریاب انکل نے پوری تفصیل سے یہاں کے حالات انہیں بتائے۔ جب وہ سارا کچھ بتا چکے تو میں نے کہا۔
”پاپا....! آپ صبح تیار رہیں، ہم دادا اور دادی کی قبروں پر چلیں گے“۔
میرے یوں کہنے پر انہوں نے چونک کر میری جانب دیکھ اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں بولے۔
”کیسا ہے وہاں پر ماحول؟“
”وہ گاﺅں تو اسلم چوہدری کا ہے، لیکن بات اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ ہم وہاں تک نہ جا سکیں“۔ میں نے انہیں اطمینا دلایا۔
”لیکن بیٹا....! جس طرح کہ میں ماہم کے بارے میں سن رہا ہوں اور اسلم چوہدری کو تمہارے بارے میں معلوم ہو چکا ہے، تو وہ وہاں پر تمہیںاور ہم سب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا.... اور ....“
”کچھ نہیں ہو گا، میں نے ان دنوں میں یہی تو بندوبست کیا ہے۔ مجھے آپ کی خواہش کا احترام ہے پاپا۔ آپ یہاں آئیں اور فوراً ہی اپنے والدین کی آخری آرام گاہ پر نہ جا سکیں۔ تو پھر میرے یہاں آنے کا مقصد کیا ہوا“۔
”اوکے....! تم مجھے تیار پاﺅ گے“۔ پاپا نے جذبات سے بھرے جرا ¿ت مند لہجے میں کہا تو میری روح تک میں سکون اتر گیا۔
”آپ آرام کریں، میں صبح یہاں آپ کو لینے آجاﺅں گا“۔ میں نے اٹھتے ہوتے کہا تو ماما نے فوراً پوچھا۔
”تم کہاں چلے؟“
”جانے دے اسے.... یہ سبزہ زار جارہا ہے“۔ اپپا نے کہا تو ماما نے شاکی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں سمجھانے کی کامیاب کوش کی اور وہاں پلٹ کر سبزہ زار پہنچ گیا۔
میری توقع کے عین مطابق اسد اور رابعہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے میرا انتظار کرے تھے۔ میں نے ہسپتال سے نکلتے ہی ایک پلان بنا لیا تھا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا چاہتا تھا۔ سلیم کے ذریعے میں نے اسد کو سبزہ زار بلوالیا تھا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ ان کے انداز میں شرمندگی کا عنصر بہت زیادہ غالب تھا۔ میں نے خاموشی سے ہاتھ ملایا اور اس کے سامنے والی نشست پر بیٹھ گیا ۔ وہ بھی خاموش تھا جسے بات کرنے کے لیے اس کے پاس فقط موجود نہ ہوں۔ تبھی رابعہ نے کہا۔
”ابان....! اسد کو نہیں معلوم تھا کہ اس کاشف کا ٹریک کیا ہے اور اصل میں وہ چاہتا کیا ہے۔ اس نے پھر ماحول ہی کچھ ایسا بنا دیا تھا کہ ....“ وہ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ ہوا وہ ماضی کا حصہ ہے۔ اسے بھول جاﺅ سوائے اس بات کے کہ ہم دوست ہیں۔ پرانی باتیں دہرانے کی ہمیں قطعاً ضرورت نہیں ہے“۔
”مجھے سمجھ نہیں آئی کہ“۔ اسد نے کہنا چاہا تو میں نے اسے بھی ٹوکتے ہوئے کہا۔
”دیکھو اسد....!یہ کاشف جیسے لوگ اپنا کوئی مقصد نہیں رکھتے۔ ایک طاقت کے ساتھ جڑے رہناان کی مجبوری ہوتی ہے کہ یہ لوگ زندگی میں اپنی حاکمیت جتا سکیں۔ حالانکہ وہ خود کسی کے غلام بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ بظاہر پیرہے لیکن اندر سے وہ نرا کاروباری شخص ہے۔ اپنے ہی مریدوں سے قرض حسنہ کے نام پر رقم بٹور کر اپنا کاروبا چلا رہا ہے اور یہ بہت معمولی بات ہے۔ لوگوں کو عذابِ آخرت سے ڈرا ڈرا کر۔ ان کی زمین ہتھیا لیتا ہے اور ان پر مدرسہ بنا کر اپنا کاروبار چلائے ہوئے ہے۔ ایسے ہی لوگ دین کے نام پر دھبہ ہیں میں اس کے بارے میں پوری تفصیل کسی وقت بتاﺅں گا لیکن اس وقت تم یہی سمجھو کہ ان سے ڈرنے کی ذرا بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تمہارا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے“۔
”آپ ان کے بارے میں اتنا کیسے جانتے ہیں؟“ رابعہ نے پوچھا۔
”یہی تو بات ہے کہ مکافات عمل ہے، اس پر مجھے یقین ہے.... شاید یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو کچھ مادی معاملات ایسے ہیں کہ جس طرح فراڈ کی بنیاد پر بنائی گئی۔ یہ کاروباری دنیا ہے، اسے کچھ اچھے اور پائیدار اصولوں سے ختم کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ بہت سارے لوگوں کی خام خیالی ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت ور ہیں۔ حالانکہ وہ مینڈک ہوتے ہیں۔ خود بھی پھٹ جاتے ہیں۔ خیر....! یہ ہمارا موضوع نہیں، میں تم لوگوں سے کچھ اور بات کرناچاہتا ہوں“۔
”جی بھائی بتائیں....!“ اسد ہمہ تن گوش ہو گیا۔
”میں نہیں سمجھتا کہ تمہارے ساتھ کوئی افرادی قوت ہے یا نہیں، لیکن کیا اب بھی تم اتنی جرا ¿ت رکھتے ہو کہ ایک طرف کاشف اور دوسری طرف مذہبی تنظیم کے ساتھ لڑائی لڑسکو؟“
”آپ کی ایک بات اب بھی میرے ذہن میں موجود ہے کہ کوئی کچھ کرتا پھرے یہ اس کا اپنا عمل ہے، مگر ہمیں نہ چھیڑے اور اگر ہمیں کوئی چھیڑے گا تو اسے خود بھگتنا ہو گا“۔ اسد نے سکون سے کہا۔
”تو پھر کیا کہتے ہو؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولا۔
”جیسے ہی مجھے کاشف کے بارے میں معلوم ہوا ، اس کی نیت کا میں نے اندازہ لگایا تو میں نے اپنے چند دوستوں کو فوراً آگاہ کردیا۔ اسے بھی معلوم ہے کہ میں گروپ رکھتا ہوں، اس لیے اب تک اس نے مجھے نہیں چھیڑا“۔
”جن دنوں میں ہسپتال میں تھا۔ انہی دنوں مذہبی تنظیم کا ایک اہم طالب علم رہنما مجھے ملنے آیا تھا۔ اس نے مجھ سے بہت ساری باتیں کی تھیں۔ مجھے کئی آفر کیں۔ میرا کاشف کے ساتھ براہِ راست کوئی تعلق نہیں، وہ ماہم کی وجہ سے تھا۔ یا پھر تمہاری وجہ سے اگر تم چاہو تو میں مذہبی تنظیم کی آفر قبول کر لوں ۔ کاشف لوگ واش ہو جائیں گے اور تم سکون سے اپنی تعلیم حاصل کرو“۔
”میں تنگ آگیا ہوں اس جنگ و جدل سے.... میں یہاں پڑھنے....“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اوکے....! آج رات میں اپنی افرادی قوت اکٹھی کرو۔ کل اسے شو کرنا ہے۔ مجھے اسلم چوہدری کے گاﺅں جانا ہے۔کیا ایسا کر سکو گے؟“ میں نے پوچھا تو اس نے اگلے ہی لمحے کہا۔
”جی، بالکل....! کب اور کیسے جانا ہے، مجھے صرف یہ بتا دیں“۔
”یہ میں تمہیں کل صبح بتادوں گا، تم کیمپس میں تیار رہنا، اپنی افرادی قوت کے ساتھ“۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔تو وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے، کل ملتے ہیں“۔
اس کے ساتھ ہی رابعہ بھی اٹھ گئی۔ وہ دونوں چلے گئے ۔ تو میں اپنے طور پر مصروف ہو گیا۔ ابھی مجھے ماہم سے بھی بات کرنا تھی لیکن اس وقت میں نے سلیم کوبلالیا۔
وہ ایک روشن صبح تھی جب میں نے اپنے پاپا کو زریاب انکل کے گھر سے لیا۔ اس وقت میرے ساتھ پسنجر سیٹ پر سلیم تھا۔ وہ پچھلی نشست پر آ کر بیٹھ گئے تو میں نے ڈرائیونگ سلیم کو دے دی اور خود پسنجرسیٹ پر آ بیٹھا۔ پاپا بے حد جذباتی لگ رہے تھے۔ وہ میری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی الگ سے مخلوق ہوں۔ میں چاہتا تو ان سے بہت ساری باتیں کر سکتا تھا لیکن میں خاموش رہا اور سلیم کو گاڑی بڑھانے کا اشارہ کیا۔ تبھی میں نے اپنے رابطے کرنا شروع کر دیئے۔ مجھے پہلے کیمپس جانا تھا۔ جہاں سرخ گاڑی میں ماہم میرا انتظار کر رہی تھی۔ میرے وہاں پہنچتے ہی ماہم اس گاڑی سے نکلی اور پچھلی نشست پر پاپا کے ساتھ آ بیٹھی تب گاڑی چل دی۔ پاپا بڑے غور سے ماہم کو دیکھ رہے تھے۔
”پاپا....! یہ ماہم ہے .... میری دوست“۔
”اور مستقبل میں میری پیاری سی بہو....“ وہ اس قدر خوش کن انداز میں بولے کہ میرے اندر سکون اُتر گیا۔ ان کی خود اعتمادی لوٹ آئی تھی۔ انہوں نے ماہم کے سر پر پیار کیا اور اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ”بالکل اپنی ماں پر گئی ہے“۔
”آپ نے میری ماں کو دیکھا ہے؟“ ماہم نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ میں خود چونک گیا۔
”ہاں دیکھا ہے بیٹا....!“ پاپا نے کہا تو وہ ان کے گلے لگ کر سسکنے لگی۔ یہ وقت جذباتی باتوں کا نہیں تھا۔ میں نے اسد سے رابطہ کیا اور اسے بتا دیا کہ کیا کرنا ہے۔ پھر اس کے بعد میں نے اسلم چوہدری کے نمبر پش کر دیئے۔ چند لمحوں بعد ہی میرا فون ریسیو کر لیا گیا۔ دوسری طرف سے اسلم چوہدری نے بڑی کرخت آواز میں ہیلو کہا تھا۔
”میں ابان علی بات کر رہا ہوں“۔ میں سکون سے کہا۔
”بول....! تُو کہاں ہے۔ میں بہت عرصے سے تجھے ملنا چاہتا ہوں“۔ وہ کرخت انداز میں بولا۔
”میں تیرے گاﺅں جارہا ہوں۔ اپنے پاپا کے ساتھ۔ اپنے دادا دادی کی قبروں پر.... ملنا چاہتے ہو تو آجاﺅ“۔میں نے اپنا لہجہ ہنوز نرم رکھا۔
”تم مجھے دھمکی دے رہے ہو۔ چیلنج کر رہے ہو؟“ وہ چیختے ہوئے بولا۔
”ہاں یہی سمجھ لو.... کیونکہ ابتداءتم نے کر دی ہے۔ اپنی طرف سے تم نے مجھے مار دیا ہے۔ اب میری طرف سے انتظار کر۔ میں کب تم تک پہنچتا ہوں“۔
”ہوں....! تو اس کا مطلب ہے اب تیرے ساتھ نپٹنا ہی پڑے گا۔ دیکھتا ہوں میں تمہیں“۔ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے سیل فون جیب میں ڈالا اور سلیم کو گاڑی بڑھانے کا اشارے کر دیا کہ مزید تیز کر دو۔
اسلم چوہدری کے گاﺅں کے باہر ہی ایک وسیع قبرستان تھا، جہاں پر اردگرد کے گاﺅں کے لوگ بھی دفن تھے۔ سرکنڈوں اور دیگر جڑی بویٹوں سے کسی حد تک سبزہ تھا۔ قبرستان میں جیسے ہی پہنچے، وہاں چند آدمی ہمارے منتظر تھے۔ سلیم نے قبرستان کے باہر گاڑی روکی تو ہم چاروں ان لوگوں کی طرف بڑھ گئے۔
”یہ لوگ کون ہیں؟“ پاپا نے پوچھا۔
”پاپا آپ کو تو نہیں معلوم کہ آپ کے والدین کی قبریں کہاں ہیں۔ میں نے آتے ہی یہاں رابطہ کیا تھا۔ ان لوگوں میں وہ جو بوڑھا شخص ہے، وہ آپ کو جانتا ہے اور آپ اسے جانتے ہیں۔ وہ گاﺅں کا حجام ہے۔ وہ پھجا نائی....
”اوہ....! یاد آیا....“ پاپا نے ایک دم سے کہا اور پھر تیزی سے ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگے۔ پاپا کا ان لوگوں سے ملنے کا منظر دیدنی تھا۔ وہ بے حد جذباتی ہو رہے تھے۔ پھجے نائی نے ہی قبروں کی نشاندہی کی تو پاپا ان قبروں سے لپٹ کر روتے رہے۔ میں ، ماہم اور سلیم انہیں دیکھتے رہے۔ میں نے انہیں رونے دیا۔ نہ جانے کب کے رکے ہوئے آنسو تھے۔ جو بہہ رہے تھے۔ کافی دیر بعد جب انہیں تسلی ہو گئی تو وہ پُر سکون ہو گئے تو انہوں نے پھجے نائی سے پوچھا۔
”سردار فخرالدین کی بیٹی جسے اس کے بیٹوں نے مار دیا تھا۔ اس کی قبر....؟“
”نہیں.... مارنے کی کوشش کی تھی۔ اسے گولی لگ بھی گئی تھی، لیکن بچ گئی تھی۔ اس کی قبر یہاں نہیں ہے“۔ پھجے نے بتایا تو پاپا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس لمحے ماہم کی سسکی نکل گئی اور ایک دم سے وہ زاروقطار رونے لگی۔
”تمہیں کیا ہوا....ماہم“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”وہی تو میری ماں تھی.... میں آپ کو تفصیل سے بعد میں بتاﺅں گی“۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا تو میں خاموش ہو گیا۔
”یہ .... کیسے.... مجھے تو یہی معلوم تھا کہ وہ مر گئی ہے۔ قتل ہو گئی تھی“۔ پاپا انتہائی حیرت زدہ لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
”پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ یہاں سے اسے ہسپتال لے گئے تھے۔ اتنا معلوم ہے کہ وہ بچ گئی تھی۔ بعد میں کیا ہوا۔ یہ ہمیں نہیں معلوم اتنا پتہ ہے کہ وہ بچ گئی تھی“۔ پھجے نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”آئیں پاپا....! چلتے ہیں اس کی وضاحت بعد میں کرلیں گے“۔ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کہاں جانا ہے؟“.... واپس ؟“
”نہیں گاﺅں چلتے ہیں۔ اپنا پرانا گھر دیکھیں گے آپ“۔ میں نے انہیں بتایا۔
”اوکے.... چلو....“ وہ ایک دم سے تیار ہو گئے۔
اس بار جب ماہم گاڑی میں بیٹھی تو بہت حد تک افسردہ تھی۔ مجھے اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ بات وہ نہیں ہے جو ہم جانتے ہیں۔ اندر کی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ ممکن ہے ماہم نے مجھے کبھی بتانا چاہا ہو، لیکن میں نے ہی نہ توجہ دی ہو۔ بہر حال یہ بعد میں سوچنے والی بات تھی۔ فی الحال مجھے کچھ اور معاملات درپیش تھے۔ میں پچھلی نشست پر پاپا کے ساتھ بیٹھ گیا اور پھجا نائی پسنجر سیٹ پر اور ہم چل دیتے۔ اس گاﺅں کے باہر ہی مجھے اسد کی تیاری کے آثار دکھائی دینے لگے تھے۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ میں نے فوراً اسد سے رابطہ کیا۔ اس نے مجھے تصدیق کر دی کہ وہ گاﺅں کے باہر آچکا ہے کہ وہ میری گاڑی دیکھ رہا ہے۔ پھر اس جلوس نما ہجوم کے ساتھ ہم گاﺅں میں داخل ہو گئے۔
اتنے ہجوم کی شاید مجھے ضرورت نہ ہوتی اور میں ایسے کرتا بھی نہیں اگر اس گاﺅں میں سردار فخرالدین کا ایک بیٹا فریاد علی نہ ہوتا۔ دوسرا بیٹا اس کا جوانی ہی میں فوت ہو گیا تھا۔ فریاد علی اور اسلم چوہدری کا آپس میں بہت گٹھ جوڑ تھا۔ کاشف جس پیر کے لیے کام کرتا تھا۔ وہ اصل میں فریاد علی ہی تھا۔ جسے میں بہت عرصہ پہلے آتے ہی پہچان گیا تھا۔ جب میں نے اپنے اس آبائی گاﺅں کے بارے میں معلومات لی تھیں۔ جسے میں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ یہ سارا کام میرے لیے جندوڈ ے نے کیا تھا اور دھیرے دھیرے یہ معلومات مجھے دیتا رہا تھا۔ اسد کو استعمال کرنے اور آئندہ فیصلے کا انحصار اس بات پر تھا کہ فریاد علی میرا سامنا کرتا ہے یا نہیں؟ ہم گاﺅں کے چوک میں پہنچ چکے تھے۔ پاپا حسرت سے گاﺅں کی ان گلیوں کو دیکھ رہے تھے۔ اگلی دو گلیوں کو پار کرنے کے بعد ہم اس گلی میں جا پہنچے، جہاں پاپا کا گھر تھا۔ تقریباً پچیس سال بعد بھی وہ گھر ویسا ہی ہیبت ناک کھنڈر تھا۔ اس پر کسی نے اپنا گھر نہیں بنایا تھا۔ اس کے جلنے کے آثار ویسے ہی تھے۔ کچی اینٹوں اور گارے سے بنا وہ گھر وقت کے ہاتھوں کھنڈر بن گیا ہوا تھا۔ پاپا ایک دم سے سسک پڑے۔ میں نے انہیں ذرا سا بھی حوصلہ نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد وہ گاڑی سے نکلے اور اس کھنڈر نما گھر میں پھرتے رہے۔ نہ جانے ان کے ساتھ کیسی کیسی یادیں لپٹ گئی تھیں۔ وہ وہاں پھرتے رہے اور روتے رہے۔ ہم سب انہیں دیکھتے رہے۔ کافی دیر بعد انہوں نے اپنے آنسو صاف کئے اور واپس گاڑی میں آبیٹھے۔
”واپس چلو بیٹا....!“ انہوں نے بھیگی آواز میں کہا تو میں نے پھجے نائی کا شکریہ ادا کیا۔ اسد کو فون پر واپس چلنے کا کہا اور خود گاڑی میں آبیٹھا۔ سلیم نے گاڑی بڑھا دی۔تب میں محتاط ہو گیا۔ یہی نازک وقت تھا۔ اسلم چوہدری فریاد علی کسی سے بھی مڈبھیڑہو سکتی تھی۔ ہم آہستہ روی سے چلتے ہوئے گاﺅں سے باہر آگئے۔ سامنے چھوٹی سی سڑک تھی جو شہر کی طرف جارہی تھی۔ یہیں کہیں میدان جنگ بن سکتا تھا۔ مگر....! کچھ بھی نہ ہوا اور ہم واپس شہر پہنچ گئے ۔ اسد واپس کیمپس چلا گیا اور میں ماہم کو لے کر زریاب انکل کے گھر آگیا۔
سارے گھر والے تو جیسے ہمارے انتظار میں تھے۔ جیسے ہی گاڑی پورچ میں رکی۔ سب وہیں آگئے۔ انہوں نے جیسے ہی ماہم کو دیکھا تو فرخ آپی نے اونچی آواز میں کہا۔
”خوش آمدید ماہم .... خوش آمدید“۔
”تو یہ ہیں ماہم بھابی....“ الماس نے خوشگوار حیرت سے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
”آﺅ بیٹا....! اندر بیٹھتے ہیں، سکون سے تعارف بھی ہو گا اور باتیں بھی کرتے ہیں“۔ آنٹی نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہم سب اندار چلے گئے۔ سکون سے بیٹھنے کے بعد زریاب انکل نے وہاں کی رودادسنی اور پھر جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ فخرالدین کی بیٹی مری نہیں بچ گئی تھی تو زریاب انکل بھی چونک گئے۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے تو یہی معلوم“۔ انہوں نے کہنا چاہا تو ماہم نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔
”انکل آپ ٹھیک کہتے ہیں.... لیکن درست بات وہی ہے جو ابان کہہ رہے ہیں“۔
”ماہم تم.... تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو بیٹی؟“ زریاب انکل نے پوچھا۔
”کیونکہ میں اس خاتون کی بیٹی ہوں“۔ ماہم نے جذباتی انداز میں بھیگتے ہوئے لہجے میں کہا تو سبھی حیران رہ گئے۔ ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ تب ماہم کہتی چلی گئی۔ ”یہ درست بات ہے کہ فریاد ماموں نے میری ماں پر گولی چلائی تھی، ایک نہیں دو گولیاں ماری تھیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے زریاب اور اس کے دوست کو بھی پکڑنا چاہتے تھے۔ ایک کو گولی بھی لگ گئی لیکن وہ پکڑا نہیں گیا، غاب ہو گیا۔ میری ماں کو ہسپتال لے آیا گیا۔ جہاں وہ زندہ بچ گئی“۔
”تو کیا اس نے اسلم چوہدری کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ وہ ساری بات “۔ پاپا نے تیزی سے پوچھا۔
”پاپا نے یہاں بھی چالاکی دکھائی، ماما کے بے ہوش ہونے کے دوران ہی وہ فخرالدین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ کسی کا گناہ اپنے سر لے لیں گے۔ دوسری طرف وہ دوقتل کر چکے تھے، ایک گھر جلا چکے تھے۔ وہ سب ایک دوسرے کی مجبوری میں جکڑے گئے۔ اگر میری ماں کے بچ جانے کا اعلان کرتے ہیں تو قتل کس کھاتے میں جاتے۔ عافیت اسی میں تھی کہ سب کچھ ابان کے پاپا پر ڈال دیا جائے اور یہ اعلان کر دیا جائے کہ میری ماں مر گئی ہے۔ شہر میں ایک حویلی خالی تھی وہ اسلم چوہدری کو دے دی گئی اور میری ماں کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا گیا ۔ اس وقت میں تین ماہ کی اپنی ماں کے پیٹ میں تھی“۔ یہ کہتے وہ رو دی۔
”اوہ....! تو اسلم چوہدری نے یہاں بھی انہیں دھوکا دیا“۔
”وہ سب ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے تھے۔ میرے ماموں اپنی زمینوں اور جائیداد کے لیے اور میرے پاپا کا چکر ہی کچھ اور تھا۔ میرے پیداہونے کے بعد خاموشی سے میری ماں کو مار دیا گیا۔ میرے ماموں اور پاپا کا گٹھ جوڑ تبھی سے بن گیا تھا اور میرا دوسرا ماموں ان کے لالچ کی بھینٹ چڑھ گیا“۔
”اوہ.... بہت برا ہوا“۔ زریاب انکل نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دکھی لہجے میں کہا اور چند لمحوں بعد بولے“۔ تم کیسے جانتی ہو یہ سب کچھ؟“
”میں اس خاندان کی فرد ہوں انکل....! جب تک شعور نہیں آیا تھا، تب تک تو کچھ نہیں تھا، شعور آتے ہی میرا تجسس بیدار ہوا اور مجھے سب پتہ چل گیا۔ میرے باپ اور ماموں کا گٹھ جوڑ آگے بھی بڑھنے والا تھا۔ میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ وہ میری شادی کزن یعنی فریاد ماموں کے بیٹے سے کرنا چاہتے تھے۔ جو ان دنوں امریکہ میں پڑھ رہا ہے۔ اس نے انتہائی نخوت سے، مجھے ذلیل کر دینے کی حد تک ریجیکٹ کر دیا کہ میں اس لڑکی سے شادی کروں گا جو حلال نہیں ہے“۔ آخری لفظ جیسے اس کے گلے پھنس گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ دھاڑ مارکر رو دی۔ تبھی ماما نے اسے اپنے گلے سے لگا کر ڈھارس دی ۔کچھ دیر بعد اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ”یہ بات.... یہ طعنہ.... مجھے کھا گیا۔ یہی سوال میں نے اپنے پاپا کے سامنے رکھ دیا تو وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے پائے۔ انہوں نے کیا جواب دینا تھا۔ تب سے میں باغی ہو گئی۔یہ حقیقت ہے کہ اسلم چوہدری میرے پاپا ہیں، لیکن ذہنی طور پر میرا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا“۔
”تم فکر نہ کرو میری بیٹی....! ہم جو ہیں....“ ماما نے پیار سے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”کیا تمہیں ابان کے بارے میں معلوم تھا کہ یہ کون ہے....یا ....“ پاپا نے اس سے پوچھا۔
”پہلے پہل مجھے بالکل معلوم نہیں تھا، لیکن بعد میں ایک دن میں نے ان کے ساتھ سلیم کو دیکھا، سلیم جو ہے وہ زریاب انکل کا خاص ملازم ہے۔ زریاب انکل چونکہ شروع ہی سے پاپا کے مخالف تھے تو ان کے بارے میں ہمیشہ تجسس رہتا تھا۔ یہ تجسس مزید بڑھ گیا کہ سلیم ان کے ساتھ کیوں؟ پھر ساری بات کھلتی چلی گئی“۔
”اوکے ....! اب اس بات کو مزید مت کھولیں۔ اگر کھولنا بھی ہے تو بہت وقت پڑا ہے۔ سب فریش ہو جائیں اور لنچ کے لیے آجائیں“۔ آنٹی نے حکم صادر کیا تو سب اس طرف متوجہ ہو گئے۔
l l l
شہر پر رات کے اندھیرے امنڈ آئے تھے اور میں سبزہ زار کی چھت پر تنہا بیٹھا صرف ماہم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے اپنا آپ کھول کر رکھ دیا تھا۔ میں جو اس سے کترا رہا تھا، اس کی مجبوری سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا چاہتی تھی، وہ آزاد خیال، اپنی مرضی کی مالک اور غصے والی لاپروا کیوں تھی؟ وہ خود سے فرارچاہ رہی تھی۔ جبکہ اندر سے وہ اب بھی وہی نرم و نازک اور کومل سی لڑکی تھی جو پتہ کھڑکنے سے بھی لرز جائے۔ زندگی کے نرالے رنگوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جس کے لیے محتاط قدم بڑھاتے ہوئے چل رہا تھا، وہ مجھے آنے کا آراستہ دے رہا تھا۔ شام ڈھلنے سے کچھ دیر قبل میں زریاب انکل کے ہاں سے آگیا تھا اور اب میں آگے کی سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ دراصل میں لاشعوری طور پر اسلم چوہدری کے فون کا یا کسی بھی ردِ عمل کا منتظر تھا۔ جبکہ اس کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ جیسے طوفان سے پہلے خاموشی ہوتی ہے۔ میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ میرے سیل فون پر کاشف کی کال آگئی۔ میں نے قدرے تذبدب محسوس کیا اور پھر کال پک کرلی۔
”تو پھر تم نے اسد کو توڑ لیا۔ مگر بے چارہ کیا کر سکے گا وہ.... اپنی طاقت کا اظہار کرنے میں اس نے ذرا سی بے وقوفی کی، آدھے سے زیادہ لڑکوں کو انہوں نے اعتماد میں ہی نہیں لیا۔ جواب اس کی خلاف ہیں“۔
”تم یہ سب بتا کر مجھے کیا جتانے کی کوشش کر رہے ہو“۔ میں نے پوچھا۔
”یہی کہ اگر کوئی گولی چلانی ہے نا تو کاندھا تو مضبوط لو بندرق رکھنے کے لیے“۔ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”دیکھ کاشف ....! مجھے کیمپس کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں ایسا کرنے چاہتا ہوں، اس بات سے تم اچھی طرح واقف ہو، لیکن اگر تُو میری کوئی آزمائش چاہتا ہے تو بتا جیسے کہے گا اور جتنے وقت میں کہے گا،میں وہ پوری کردوں گا“۔ میں نے پورے اعتماد سے کہا۔
”دشمنی تو میں بھی نہیں چاہتا.... مگر تمہارے کام دشمنوں والے ہیں۔ تو پھر میں اسے کیا سمجھوں؟“ اس نے تقریباً غصے بھرے لہجے میں کہا، جیسے مجھے یہ باور کر انا چاہتا ہو کہ وہ خود پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ میں اس کی ڈرامہ بازی سے واقف تھا۔ اس لیے اسے باور کرائے بغیر کہا۔
”تم جو چاہو سمجھو بندہ اگر اپنا نقصان کر کے بھی مفافقوں سے جان چھڑالے تو سودا گھاٹے کا نہیں ہوتا۔ کسی کی لڑائی اگر تم لڑنا ہی چاہتے ہو تو شوق سے لڑو۔ میں تمہیں منع نہیں کروں گا“۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”مجھے نفع اور نقصان سے کوئی مطلب نہیں، میں تمہیں صرف یہ سمجھا رہا ہوں کہ اگر کیمپس میں رہنا ہے تو ماہم سے دور رہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ میری ماہم کے ساتھ کیا لڑائی ہے“۔ اس نے غراتے ہوئے کہا تو میں تیزی سے بولا۔
”جھوٹ بول رہے ہو تم .... سچ کیا ہے میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ ماہم اب بھی میری بانہوں میں ہے، جن کو یہ پسند نہیں ہے، انہیں بتا دو....اگر وہ مجھ سے چھین سکتے ہیں تو چھین لیں“۔
”مطلب، تم سیدھے سبھاﺅ نہیں سمجھو گے، تمہیں بہت غور سے سمجھانا پڑے گا“۔ اس نے غصے سے کہا۔
”لگتا ہے اب کی بار تمہیں خود ہی سمجھنا پڑے گا۔ آزمالو“۔ میں نے بڑے تحمل سے کہا تو گویا اسے آگ لگ گئی۔ یہ اسے کھلم کھلا دھمکی تھی۔
”تو چلو پھر آزما لیں“۔ اس نے دھمکی کاجواب دے دیا۔
”میدان فقط کیمپس رکھنا ہے، پورا شہر یا پھر پورا ملک.... میں دیکھناچاہتا ہوں کہ تُو کہاں تک بھا گ سکتا ہے۔ تُو بھاگے گا مگر میں نے تمہیں بھاگنے نہیں دینا۔ کیونکہ تیرے جیسے کتے اپنی مرضی سے نہیں بھونکتے۔ وہ کسی کی مرضی پر بھونکتے ہیں.... وہی پیر....! وہ کاروباری پیر....! جو تقویٰ کا فریب کیے بیٹھا ہے“۔
”بہت بول لیا تُو نے.... اب اگر تُو نے کیمپس میں قدم بھی رکھا، تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا“۔ اس نے غراتے ہوئے کہا۔
”اور اگر تُو نے کیمپس سے باہر قدم رکھا تو تجھے نکلنے نہیں دوں گا۔ آزمائش شرط ہے“۔میں نے سکون سے کہا۔
”دیکھ لیتے ہیں....“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔ تب میں فون بند کرتے ہوئے مسکرا دیا۔ ان کی خاموشی سے مجھے اضطراب محسوس ہو رہا تھا۔ اب میں پُرسکون تھا۔ میں نے اسے باور کرانے کے لیے اسد کو فون کیا کہ اس کا پتہ کرو، وہ کہاں پر ہے، پھر مجھے بتاﺅ۔ ایسا ہی فون میں نے پیر بخش کو کر دیا کہ اسے گھیرے میں رکھنا ہے۔ اس میں جتنا بھی خرچ آجائے پروا نہیں کرنی، اسے کیمپس سے باہر نہیں جانے دینا۔ پھر رات گئے تک ماہم سے فون پر باتیں کرتا رہا۔ وہ زریاب انکل کے گھر میں فرح آپی کے پاس تھی۔ میں نے اسے پوری صورتِ حال سمجھا دی۔ ان دونوں نے مجھے چند مشورے دیئے جو کافی معقول تھے۔ ہم نے پروگرام بنا لیا کہ صبح اکٹھے ہی کیمپس جائیں گے۔ ان سے بات کر کے میں نے اسد سے رابطہ کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کون سے ہاسٹل کے کس کمرے میں ہے۔ کچھ دیر بعد پیر بخش نے بھی اطلاع دے دی کہ وہ کہاں پر ہے۔ دونوں کی طرف سے تصدیق ہو جانے پر میں نے کاشف کو فون کر دیا۔
”میں تمہارے ہاسٹل کے باہر کھڑا ہوں۔ آجاﺅ، روک لو مجھے ....“۔
”وہاٹ....! اس نے زدر سے کہا، ایک دم سے اس کی آواز لرز گئی تھی۔
”میں وہیں آجاﺅں گا، جہاں تم مجھے بلاﺅ گے۔ میں آگیا ہوں“۔ میں نے پھر کہا تو اس نے جواب دینے کی بجائے فون بند کر دیا۔ پیر بخش کا کارندہ وہیں تھا۔ دوسری طرف اسد کا ساتھی اس ہاسٹل میں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہاسٹل کے اندر تو ہلچل ہوئی، مگر کاشف کی ہمت نہیں ہو سکی باہر نکلنے کہا۔ میں نے پھر اسے فون کر دیا۔ کافی دیر بیل جاتی رہی پھر اس نے فون پک کر لیا۔
”تم تو وہاں نہیں ہو“۔
”تم ہاسٹل سے باہر ہی نہیں نکلے ہو۔ میں کب سے انتظار کررہا ہوں، خیر اندھیرا ہے تمہیں شاید پتہ نہ چلے یا تم اب بندے نہ جمع کر پاﺅ۔ صبح میں نے کیمپس آنا ہے جو ہو سکے کر لینا“۔ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔
صبح میں کیمپس جانے کے لیے تیار تھا۔ مجھے علی الصباح ہی اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے کہ میرے استقبال کے لیے کیا کچھ کیا جارہا ہے۔ میں بھی کیمپس کے اندر اور باہر سے پوری طرح تیار ہو گیا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اسلم چوہدری اور فریاد علی وہیں کیمپس ہی میں میرا قصہ تمام کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ میں نے اپنی گاڑی نکالی اور کیمپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔اسلحہ سے لیس سلیم بھی پسنجر سیٹ پر آن بیٹھا۔ ایک خاص مقام پر فرح آپی اور ماہم دوسری گاڑی میں ہمیں مل گئیں اور ہم چاروں اپنے ڈیپارٹمنٹ جا پہنچے۔ جہاں معمول کے مطابق کلاس فیلوز آئے ہوئے تھے۔ چیئرمین صاحب ابھی اپنے آفس نہیں آئے تھے۔ ہم کچھ دیر وہاں رہے اور پھر حسب معمول کینٹین پر آگئے جہاں رابعہ اور رخشندہ ہمارے انتظار میں تھیں۔ اسد میرے ساتھ رابطے میں تھا۔ مذہبی تنظیم کے لوگ سامنے آئے بغیر اس کی پوری مدد کر رہے تھے۔ کاشف جیسے ہی ہاسٹل سے باہر نکلا، چند لڑکوں نے اسے اندر چلے جانے کو کہا۔ تقریباً دو گھنٹے سے وہ ہاسٹل ہی سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔ تبھی میں نے اسلم چوہدری کو فون کیا۔
”تیرا بھیجا ہوا ایک چوہا میں نے تاڑ لیا ہوا ہے۔ کیا اس کی مد د کے لیے کمک نہیں بھیجو گے“۔
”میں تیری ابھی بولتی بند کرتا ہوں“۔ اس نے غراتے ہوئے کہا۔
”لیکن یہ دیکھ لینا، میں تیرا ہونے والا داماد ہوں۔ اپنی بیٹی کو بیوہ کرے گا کیا“۔ اس کے ساتھ ہی میں نے قہقہہ لگا دیا۔
”تیرا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا“۔
”چلو، نہیں کرتا نکاح، ویسے ہی رکھ لیتا ہوں، تُو نے بھی تو اسے بغیر نکاح کے پیدا کیاتھا“۔ میں نے کہا۔
”بکواس کرتے ہوتے کتے“۔
”بھونکو مت.... اور سنو۔ میں تیرے اس چوہے کو ابھی مار رہا ہوں۔ ایک گھنٹہ تیری کمک کا انتظار کروں گا اور کیمپس کے وقت کے بعد واپس چلا جاﺅں گا اور کل میں تیری بیٹی کے ساتھ شادی کر رہا ہوں۔ روک سکتے ہو تو روک لو“۔
”تُو زریاب کے کہنے پر اچھل کود رہا ہے نا۔ میں دیکھتا ہوں وہ تیری کیا مدد کرتا ہے“۔
”شادی میں تیری بیٹی سے کر رہا ہوں۔ ہاں وہ شادی میں شرکت ضرور کریں گے۔ اگر تجھ میں ذرا سی بھی غیرت ہے تو آ کر مجھے روکنا.... میں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں اور اگر تم نہ آئے تو میں خود تیری بیٹی کے ساتھ تیرے گھر آﺅں گا ۔ تجھ سے ملنے“۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ میں نے لڑکیوں کو وہیں بیٹھے رہنے دیا اور خود کاشف والے ہاسٹل کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسد اور پیر بخش کو بتا دیا کہ میں آرہا ہوں۔
ہاسٹل کے باہر دور دور تک کوئی نہیں تھا، باہر سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سنسان ہو، لیکن جیسے ہی میں نے گاڑی اندر داخل کی اندر ہاسٹل میں میلہ لگا ہوا تھا۔ کاشف اور اس کے ساتھیوں سمیت انہیں باہر لان میں بٹھایا ہوا تھا۔ بلاشبہ ان سے اسلحہ چھین لیا گیا تھا۔ میں کار سے باہر آیا اور باہر نکلتے ہی میں نے کاشف کو اپنی طرف بلایا۔ وہ باہمت تھا، شاید مرتے ہوئے ہیرو بنناچاہتا تھا۔ اس لیے اٹھ کر میرے پاس آگیا۔
”کاشف....اب بھی اگر تم بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاﺅ، میں تمہیں وقت دیتا ہوں“۔
وہ چند لمحے میرے طرف دیکھتا رہا اور بولا۔
”تم ٹھیک کہتے ہوابان....میں کسی کی لڑائی لڑ رہا ہوں۔ میں معافی مانگتا ہوں“۔
”کون سپورٹ کررہا ہے تمہیں؟“
”فریاد علی“۔ اس نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا۔
”تم کل شام تک ادھر ہی رہو گے، کہیں نہیں جاﺅ گے۔ میری بات مانو گے تو بہت کچھ پاﺅگے۔ ورنہ تم جانتے ہو، تیرے ساتھ کیا ہو سکتا ہے“۔ میں نے انگلی سے اس کا سر اوپر کرتے ہوئے کہا۔ تو اس نے دھیرے سے سر ہلا دیا مجھ سے خاصے فاصلے پر مذہبی تنظیم کا ایک سرگرم رکن کھڑا تھا۔ میں نے اسے اشارے سے قریب بلایا تو وہ چشم زدن میں قریب آگیا“۔ یہ ہاسٹل اب تمہاری نگرانی میں ہے۔ چھان بین کر لو.... کوئی اسلحہ وغیرہ نہ ہو۔ یہ کاشف تمہارے سپرد.... اگر یہاں سے نکلنے کی کوشش کرے تو“۔باقی بات میں نے اسے اشارے میں سمجھا دی۔ اس کی باچھیں کھل گئیں۔ میں نے مزید بات کرنا پسند نہیں کیا اور وہاں سے پلٹ کر کینٹین پر آگیا۔ جہاں فرح آپی، ماہم، رابعہ اور رخشندہ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ میں ان کے پاس جا بیٹھا تو فرح آپی نے پوچھا۔
”کہاں چلے گئے تھے تم“۔
”یہیں تھا“۔ میں نے مختصر سا جواب دیا اور خاموش ہو گیا۔
”اچھا، ہم نے ایک پروگرام بنایا ہے۔ یہ میرا خیال ہے زیادہ محفوظ اور بلاشبہ یاد گار ہو گا“۔ فرح آپی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”وہ کیا....؟“ میں نے پوچھا۔
”تمہاری اور ماہم کی شادی یہیں اس کیمپس میں ہوگی؟“
”واﺅ.... ! اچھا ہے“۔ میں نے لمحہ میں اس حکمت کو سمجھ لیا، جو فرح آپی کے ذہن میں تھی۔
”تو بس پھر ٹھیک ہے۔ میں سارے انتظام کر لیتی ہوں، تم اپنی بارات کا بندوبست کر لو“۔ انہوںنے مسکراتے ہوئے کہا تو نہ جانے کیوں مجھے یہ لگا کہ ماہم کے چہرے پر خوشیوں کے پھو ل کھلنے کی بجائے اداسی کی زردی چھا گئی ہے ۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر موہوم سا مسکرادی۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے مطمئن رہنے کا اشارہ کیا تو اس نے رسپانس دے دیا۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *