Thursday, 5 October 2017

کیمپس امجد۔۔۔ جاوید ۔۔۔قسط نمبر17

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر17
مجھے جب ہوش آیا تو میرے خیال اور سوچیں باہم دست و گریباں تھیں۔ کوئی خیال اور سوچ بھی پوری نہیں تھی۔ آدھی ادھوری، ایک دوسرے میں پیوست کسی کا سرا کہیں جا نکلتا تھا۔ سبز، گہرا سبز، سرخ خون، لتھڑے ہوئے خون سے لبریز کریہہ چہرے پتوں کی سائیں سائیں اور نہ جانے کیا کیا دماغ میں چل رہا تھا۔ نہ جانے یہ کتنا وقت تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں پڑا ہوں، جب ذرا یہ احساس ہوا تو میں حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں تھا۔ مجھے آکسیجن لگی ہوئی تھی اور میرے بارے میں یہ خیال تھا کہ میں کسی بھی لمحے اس دنیا کو چھوڑ کر جا سکتا ہوں۔ نہ جانے زرقا کا ہیولا میرے دماغ میں کہاں سے آگیا۔ اس کے بارے میں سوال گونجے لگا کہ اس کا کیا بنا، وہ زندہ بھی ہے یا چل بسی؟ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ایک ہیولا میرے سامنے لہرایا تو مجھے اپنی بنیائی پر شک ہونے لگا۔ کیا میں دیکھ نہیں سکتا ہوں یا اب ایسا ہی دھندلا دکھائی دے رہا ہے، یہ حقیقت ہے یا میں آنکھیں بند کیے سوچ رہا ہوں۔ میرا دماغ درد کرنے لگا، مگر ھپر ایک دم سے میں پُرسکون ہو گیا۔ میرے دماغ پر اندھیر ا چھانے لگا اور میں پھر خود سے غافل ہو گیا۔
یہ دورانیہ نہ جانے کتنا تھا، لیکن اس بار جب ہوش آیا تو خیال واضح تھے اور سوچیں صاف تھیں۔ میں دیکھ بھی ٹھیک رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس ڈاکٹر کے ساتھ دو نرسیں موجود تھیں، جب میں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بلانا چاہا۔ مگر میں بول نہ سکا۔ میری آواز کہیں گم ہو گئی تھی میں نے اشارے سے انہیں متوجہ کیا تو انہوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر خوش کے آثار نمودار ہوئے تو مجھے کافی حد تک اطمینان ہوا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ میرے زندگی کی طرف لوٹ آنے پر خوش ہیں۔ ماہم میں قوت گویائی کے چھن جانے سے ایک دم پریشان ہو گیا۔ میں انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ ایک بار پھر غافل ہو گیا۔ میں بس اتنا دیکھ پایاتھا کہ میرے اردگرد کافی سارے لوگ جمع تھے۔
اس بار جب میں ہوش میں آیا کافی حد تک توانائی محسوس کر رہا تھا۔ مگر مجھے بونے کی اجازت اب بھی نہیں تھی یا شاید میں بول ہی نہیں سکتا تھا۔ میں اشارے سے نرس کو اپنی طرف متوجہ کیا تو وہ فوراً ہی میری طرف لپکی ۔ میں اس سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرا اپنا کوئی یہاں پر ہے جس سے میں مل سکوں۔ میرا سوال میرے دماغ ہی میں گونج کر رہ گیا۔ دقعتاً مجھے شیشے کے پار سلیم کا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ مضطرب انداز سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے نرس کو سمجھانے چاہا کہ وہ سلیم کو یہاں میرے پاس لے آئے مگر نہ سمجھی یا شاید وہ میری بات سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی۔ میں بے بسی کی انتہا پر تھا۔ سوالوں کا ایک ریلا میرے دماغ میں تھا لیکن میں اس کا ابلاغ نہیں کر پارہا تھا۔ جس سے میرے اندرکھلبلی سی مچ گئی تھی۔ میں ہلنا چاہتا تھا مگر ہل نہیں پا رہا تھا۔ کہنا چاہتا تھا کہ کہہ نہیں پارہا تھا اور کس سے کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا، وہ نہیں پوچھ سکتا تھا۔ اپنی بے بس پر میں دکھ سے فقط آنسو ہی بہا سکا۔ کیونکہ میں نے مزاحمت کرنا چاہی تو پریشان نرس نے میرے جسم میں انجکشن پیوست کر دیا۔ جس سے میں پھر غافل ہو گیا اور مجھے اپنا ہوش نہ رہا۔
اس ہوش اور بے ہوش میں وقت گزرتا رہا۔ جب بھی ہوش میں آتا تو میرا اضطراب مزید بڑھ جاتا۔ سوالوں کی یلغار سے میں ادھ موا ہوا جاتا۔ تاہم ایک بات کی خوشی تھی کہ میں زندہ ہوں اور دھیرے دھیرے اپنے حواسوں میں آرہا ہوں۔ پھر ایک دن میں نے بڑی مشکل سے ادھ کچرے سے لفظ کہہ ہی دیئے جسے ڈاکٹر نے سمجھ لیے اور اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا۔
”مسٹر ابان....! آپ ٹھیک ہو اور خطرے سے باہر ہو۔ مگر آپ کے زخم اس قدر زیادہ ہیں کہ آپ کو بے ہوش رکھنا ہماری مجبوری ہے۔ اس لیے آپ گھبرائیں مت“۔
”میں نہیں گھبراتا، آپ وہ سلیم کو یہاں بلوا دیں“۔ میں نے کہا تو ڈاکٹر سمجھ گیا اور پھر بڑے رسان سے بولا۔
”لیکن چند شرطوں کے ساتھ میں آپ کو سلیم سے ملا دیتا ہوں۔ زیادہ بات نہیں کریں گے، صرف پانچویں منٹ اور کسی قسم کی کوئی بے جا ضد نہیں کریں گے“۔
ڈاکٹر کے ہنے پر میں نے سر ہلایا تو اس نے خود باہر جا کر سلیم کو بلایا اور میرے پاس کھڑا کر کے خود چلا گیا۔
”کون تھے.... وہ لوگ....“ میں نے پوچھا تو آرذرہ سے سلیم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اسلم چوہدری کے بندے تھے۔ میں اس کے پاس گیا تھا اور زریاب صاحب کی ہدایت کے مطابق میں نے آپ کو مزارع کا بیٹا ہی ظاہر کیا۔ مگر وہ نہیں مانا۔ اس نے ختمی طور پر زریاب صاحب کو یہ پیغام دیا کہ اس کی بیٹی کے پیچھے جان بوجھ کر کسی بندے کو لگایا ہے۔ وہ ساری کہانی سمجھ گیا لیکن اس سے یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ آپ ہیں کون۔ اس نے اپنے بندے بھیجے تھے کہ آپ کو اٹھا کر لے آئیں۔ مگر شاید وہاں ماحول ایسا نہیں بن سکا کہ وہ بجائے آپ کو اغوا کرنے کے .... معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا“۔
”زرقا....؟ “ میں نے پوچھا۔
”وہ بچ گئی ہے اسے کوئی فائر نہیں گلا مگر حادثے کی وجہ سے کافی زخم آئے ہیں۔ وہ دہشت زدہ زیادہ ہے“۔ اصل میں آپ لوگوں کو فوراً ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔ مجھے جب احساس ہوا کہ اسلم چوہدری انتہائی غصے میں ہے تو میں نے آپ کو مطلع کرنے کی بجائے پیر بخش سے کہا کہ وہ آپ کے پا س جائے اور کچھ بندے بھی لے جائے۔ میں نے سوچا آپ کو خواہ مخواہ الرٹ کرنے یا ڈسٹرب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، میں خود آپ کے پاس پہنچ جانے والا تھا۔ پیر بخش آپ سے نہیں مل سکا، آپ وہاں نہیں تھے پتہ چلا کہیں پارک گئے ہوئے ہیں۔ آپ لوگ جیسے ہی واپس آئے تھے مجھے اطلاع مل گئی تھی۔ میں اس وقت پیر بخش کے پاس ہی تھا۔ میں نے آپ کو کل کی تو آپ کا نمبر معروف تھا اور جب ڈیپارٹمنٹ سے آپ تک پہنچ، اس وقت تک یہ حادثہ ہو گیا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں قریب ہوتے ہوئے بھی آپ کو نہیں بچا سکا“۔
”کوئی بات نہیں ایسا قسمت میں تھا، ان بندو کا کیا ہوا؟“
”ایک مارا گیا اور باقی فرار ہیں۔ زریاب صاحب کو جیسے ہی معلوم ہوا انہوں نے اسلم چوہدری کو وارننگ دے دی ہے کہ اگر ابان کو کچھ ہوا تو وہ اسے اجاڑ دے گا۔ وہ بہت پریشان ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں۔ اس وقت ان کی ساری توجہ آپ پر ہے۔ وہ ہر پندرہ منٹ بعد آپ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کئی بندوں کی ڈیوٹی یہاں پر لگائی ہوئی ہے۔ فرح اور فروابھی روزانہ کرتی ہیں اور آپ کو دیکھ کرو اپس چلی جاتی ہیں“۔
”اوہ....! مجھے کتنے دن ہو گئے ہیں یہاں....؟“
”آج چوتھا دن ہے“۔ اس نے بتایا۔
”رچڈل میں تو کسی کو نہیں بتایا“۔ میں نے مضطرب ہو کر پوچھا۔
”میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ زریاب صاحب سے اس بارے میں میری کوئی بات نہیں ہوئی۔ پتہ نہیں بتا دیا ہے۔ یا پتہ نہیں، نہیں بتایا “۔ میں سر آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ میری غلطی نہیں تھی، میں نے پوری فیلڈنگ لگائی تھی لیکن وہ میری توقع سے زیادہ کہیں تیز نکلے۔ وہ اس نے اپنے خاص کمانڈو بھیجے تھے۔ ظاہر ہے وہ اس کا بیٹی کا معاملہ تھا۔ آپ مجھے معاف کر دیں سر بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔ پھر دیکھئے گا“۔
وہ کچھ مزید کہتا لیکن میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے پوچھا۔
”اور ماہم....“
”حیرت انگیز بات یہ ہے سر جی، وہ حادثے کے پانچ یا سات منٹ بعد وہاں پہنچ گئی تھی۔ میں نے دیکھا وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی۔ وہ میرے ساتھ یہاں ہسپتال میں آئی ہے۔ پھر اس کا پتہ نہیں وہ کہاں پر ہے۔ اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی وہ یہاں آئی۔ کل میں نے اس کے بارے میں کسی سے پوچھا تھا تو پتہ چلا کہ وہ چار دن سے غائب ہے اپنے باپ کے گھر بھی نہیں ہے۔ اس کا کوئی سراغ نہیں لگ رہا ہو کہاں ہے“۔
”یہ کیسے....؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”میں نے یہ بات زریاب صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ اسلم چوہدری اب یہ الزام لگا رہا ہے تاکہ آپ کے معاملے پر کوئی سودے بازی کی پوزیشن میں آجائے۔ بہر حال وہ چار دن سے غائب ہے یہ حقیقت ہے“۔ سلیم نے تصدیق کی تو میرے دماغ میں نہ جانے کیوں آندھیاں چلنے لگیں۔ یہ کوئی اچھا اشارہ نہیں تھا۔
اسسے پہلے کہ میں سلیم سے مزید کوئی سوال پوچھتا، ڈاکٹر نے آ کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے مڑ کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور پھر سرہلاتے ہوئے میراہاتھ ہلکے سے دبایا اور تیزی سے پلٹ گیا۔ ڈاکٹر چند لمحے میرے چہرے پر دیکھتا رہا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ کر دینے والا محلول میری رگوں میں اتاردیا۔
میں انہی سوتے جاگتے اور ہوش سے بیگانہ ہو جانے والے دنوں میں سے گزرتا ہوا ہسپتال کے بستر پڑا رہا۔ سورج کب طلوع ہوتا ہے اور مغربی افق پر کب اتر کر اوجھل ہو جاتا ہے۔ میں یہ دیکھ ہی نہیں سکا تھا۔ چاندنی کس طرح بکھرتی ہے اس کا احساس بھی مجھے نہیں ہوا۔ ہاں البتہ الجھی سوچیں، بے ترتیب خواب اور پراگندہ خیال میری ذات کے ساتھ جڑے رہے۔ ان سے میں چاہتے ہوئے بھی فرار حاصل نہیں کر سکا۔ زندگی جیسے ایک نقطے پر آن رکی تھی اور میں اسی نقطے کے اردگرد کبھی پھسل جاتا اور کبھی سکڑ کر مرکز میں سمٹ جاتا۔ تاہم ماہم کا خیال کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی اوٹ سے جھانکتا ضرورتھا۔ میں اس کی طرف لپکتا ضرور تھا لیکن اسے اپنی دسترس میں نہیں کرپاتا تھا۔ ایک ہفتے بعد مجھے پرائیوٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔
وہ صبح کا وقت تھا جب میں پرائیویٹ روم میں شفٹ ہوا۔ وہاں جاتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میں کسی ہسپتال کے نہیں اپنے گھر کے کمرے میں آگیا ہوں۔ ماحول بدلا تو خوشگواریت میرے اندر در آئی۔ مجھے بہت اچھا لگا اور سکون محسوس ہوا۔ اس وقت میری خوشی دو چند ہو گئی جب میں نے کمرے میں فرح آپی کو موجود پایا۔ اس کے چہرے پر محبت، پیار، بے بسی، خوشی اور دکھ کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ میں اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کہ یہ رنگ کیوں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ آگے بڑھیں اور مجھے کاندھوں سے پکڑ کر لٹا دیا تو میں نے بے ساختہ کہا۔
”آپی، آپ کو دیکھ کر مجھے اچھا لگا“۔
”پورا ایک ہفتہ ہو گیا ۔ تم بونگوں کی طرح بے حس حرکت پڑے ہوئے ذرا اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ میں روزانہ یہاں آتی تھی اور پھر واپس چلی جاتی تھی۔ آج مجھے بھی بہت اچھا لگ رہا ہے ۔ بس تم اب جلدی سے ٹھیک ہو جاﺅ“۔ اس نے ممتا جیسے انمول جذبے میں بھیگے ہوئے لہجے میں کہا تو میرا دل بھر گیا۔ یقینا میرے آنسو نکل آئے ہوں گے۔ اس لیے میرے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولی۔ ”پاگل....! تیری بہن تیرے پاس ہے نا.... اب کیوں رو رہے ہو؟“
”یہ خوشی کے آنسو ہیں آپی....“ میں نے اعتراف کیا تو وہ جلدی سے بولی۔
”اچھا چلو، لیٹو نہیں، اٹھ کر بیٹھو، میں تمہارے لیے بہت کچھ بنا کر لائی ہوں پہلے وہ کھاﺅ، پھر میں تجھے ایک اچھی سی خبر سناتی ہوں“۔
”واقعی کوئی اچھی خبر ہے یا....؟“ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”اصلی.... خبر ہے! چلو پہلے تم کچھ کھا پی لو“۔ یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور قریب میز پر دھرے مختلف برتنوں میں سے کھانا نکانے لگی۔ مجھے لگا جیسے پتہ نہیں کتنے برس ہو گئے ہوں گھر کا کھانا چکھے ہوئے۔ میں کھاتا رہا اور فرح آپی یونہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں۔
”مجھے معلوم تھا کہ تم سبزہ زار میں ہو اور تم کس مقصد کے لیے پاکستان آئے ہو۔ میں نے پاپا سے کئی دفعہ تمہاری مدد کرنے کے لیے کہا۔ مگر پتہ نہیں وہ ہمیشہ کیوں ٹال جاتے رہے۔ حالانکہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ میں بھی اسی کیمپس میں پڑھی ہوں۔ میں یہاں کی صورتِ حال کے بارے میں جانتی ہوں“۔
”انکل نے آپ کو اجازت کیوںنہیں دی، مطلب آپ نے کیا محسوس کیا؟“ میں نے یونہی پوچھ لیا۔
”پتہ نہیں، شاید ان کا خیال یہ تھا کہ اسلم چوہدری کو معلوم نہ ہو جائے“۔ آپی نے بے خیالی میں کہا۔
”لیکن اب تو شاید اسے معلوم ہو گیا ہے کہ میں کون ہوں؟“ میں نے پوچھا۔
”پتہ نہیں۔ پر اب اسے معلوم ہو بھی جائے تو کوئی بات نہیں اور کوئی سامنا کرے یا نہ کرے۔ میں ضرور سامنے آجاﺅں گی۔ کیونکہ میں نے بتائے بغیر کسی کو بھی حتیٰ کہ پاپا کو بھی.... تمہارے معاملے میں پوری طرح دخل اندازی شروع کر دی ہے۔ اب جو ہو گا دیکھا جائے گا“۔
”کب سے آپی.... کب سے آپ نے دلچسپی لی....“ میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”دلچسپی تو میں شروع سے لے رہی تھی بھائی، جب تم یہاں آئے تھے، دخل اندازی کہو.... جب تم پر اسلم چوہدری نے حملہ کروایا۔ یہ حملہ بہت جان لیوا تھا۔ آپی نے سرلہراتے ہوئے کہا۔
”یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ حملہ اسلم چوہدری نے ہی کروایا ہے؟“ میں نے تصدیق چاہی۔
”ہاں....! پاپا نے اسے وارننگ دی ہے۔ اب وہ الزام لگا رہا ہے کہ تم لوگوں نے میری بیٹی کو اغوا کر لیا ہے۔ اسے چھڑانے کے لیے بندے بھیجے تھے۔ بس اب تم ٹھیک ہو جاﺅ بھائی....“ فرح نے نہ جانے کیا سوچ کر جھرجھری لی۔
”رچڈل....! وہاں کسی کو خبر....!“ میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”میں جھوٹ نہیں بولوں گی۔ وہاں پاپا نے بتا دیا ہے۔ یہ ایسی بات تھی کہ چھپائی نہیں جا سکتی تھی۔ انکل تو فوراً آنا چاہتے تھے۔ وہ آنے کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے۔ پھر تمہاری حالت سنبھل گئی، بس وہ ایک دو دن میں یہاں آجائیں گے“۔
”پایا یہاں آرہے ہیں؟“ میں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
”ہاں....! بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاﺅ۔ بندے کی قوتِ ارادی بھی تو ہوتی ہے“۔ آپی نے نصیحت کرنے والے انداز میں کہا تو میرا دل بھر آیا۔ نہ جانے پاپا کو میرے بارے میں جان کر کتنا دکھ ہوا ہو گا۔ شاید میرا چہرہ اتر گیا تھا۔ اس لیے آپی نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اپنا منہ ٹھیک کرو۔ لڑکیوں کی طرح آنسو نہ بہانے لگ جانا ۔ وہ تم نے ماہم کے بارے میں پوچھا ہی نہیں“۔
”ہاں....! وہ سلیم بتا رہا تھا کہ غائب ہے۔ کہاں ہے، یہ معلوم نہیں“۔ میں نے اسے بتایا۔
”نہیں....! وہ کہیں غائب نہیں ہوئی وہ سمجھو میرے پاس ہے“۔ آپی نے اطمینان سے کہہ دیا۔
”کیا.... وہ آپ کے پاس....“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”یہی دخل اندازی ہے لڑکے....اب سنو....! وہ یہیں مجھے ہسپتال میں ملی، اب میں تو سب کچھ جانتی تھی۔ اس لیے ماہم کے ساتھ میری دو تین طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ بہت کچھ طے ہوا اور میں نے اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیا کہ تم یہاں پر کیوں آئے ہو“۔ وہ اس اطمینان سے کہتی چلی گئی۔
”سب کچھ ....؟“ مجھ پر حیرت ٹوٹ پڑی۔
”سانس تو لو.... میں بتا رہی ہونا.... احمقوں کی طرح دیدے پھاڑ رہے ہو۔ سنو....!“ یہ کہہ کر آپی نے سانس لیا اور بولی۔ ”سب کچھ سے مراد یہ نہیں کہ تم سازش کر کے آئے تھے کہ ماہم کو پھنسا کر پھر اس کے باپ تک پہنچو گے۔ نہیں بلکہ سیدھے اسلم چوہدری سے بدلہ.... ماہم کا تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔ یہ تو اتفاق ہے کہ ماہم، ابان کی کلاس فیلو بن گئی۔ اس لیے ابان رک گیا کہ براہِ راست اسلم چوہدری کو نشانے پر نہیں لیا، راستے میں ماہم آڑے تھی۔ میں نے کہانی ٹھیک گھڑی تھی“۔
”پھر....!“ میں نے پوچھا۔
”پھر کیا.... ! وہ اپنے باپ سبے بے انتہا متنفر ہو گئی۔ اس نے اپنی کچھ باتیں بتائیں، جو بہر حال سچ معلوم ہوتی ہیں۔ میں نے اسے آزمانے اور پرکھنے کے لیے ایک طریقہ سوچا۔ اسے کہا کہ وہ اپنے باپ سے دور ہو جائے غائب ہو جائے اور وہ ہو گئی“۔ آپی نے سکون سے کہہ دیا۔ 
”غائب کہاں ہو گئی“۔ میں نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔
”اسے فقط اپنے تک محدود رکھنا۔ وہ اس وقت کیمپس میں ہے۔ میری ایک دوست اور کلاس فیلو یہیں ایک ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتی ہے۔ وہ لڑکیوں کے ایک ہوسٹل کی وارڈن بھی ہے۔ ماہم اس کے ساتھ رہ رہی ہے۔ میرے ساتھ رابطہ ہے۔ اب تم ٹھیک ہو۔ تو فون پر اس سے رابطہ رکھنا۔ دنیا کے لیے وہ غائب ہے“۔
”کمال کر دیا آپ نے .... بہت اچھی دخل اندازی ہے“۔میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”میرے خیال میں ایک عورت ہونے کے ناطے جو مجھے ماہم کے جذبات و احساسات دکھائی دیتے ہیں، انہیں اگر سو دفعہ بھی پرکھ لیا جائے، ان کا تجزیہ کر لیا جائے تو پھر بھی اس کا نتیجہ ایک ہی آئے گا کہ وہ تم سے شدید محبت کرنے لگی ہے۔ اصل میں اس کے اندر جو محبت کی شدت ہے ۔ اس نے ہمیں حیران کیا ہوا ہے۔ عام حالات میں ایسا ہوتا نہیں۔ اس لیے ہم تذبذب کا شکار ہو گئے ہوئے ہیں“۔
”ایسا کیوں ہوا آپی“ میں نے یونہی سوال کر دیا۔ مقصد صرف یہی تھا کہ ماہم کی بات چلتی رہے۔
”اس کی دووجوہات ہیں، جو میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کی نگاہ میں آج تک کوئی جچا ہی نہیں تھا۔ تم اسے بے حد پسند آئے ہو تو اپنے سارے جذبات اور احساسات کا مرکز وہ تمہیں بنا بیٹھی ہے۔ ایک لڑکی جب کسی کو اپنا مان لیتی ہے اور اسی کے لیے اپنے اندر محبت کے جذبات پھوٹتے ہوئے محسوس کرتی ہے نا تو پھر وہ اسی کی ہوتی ہے۔ کوئی اور اس کی نگاہ میں جچتا ہی نہیں ہے۔ یہ تو اس کے اندر کی صورت ِحال ہے اور دوسری بات جو میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارے دوستوں نے تمہیں اس کی وجہ سے چھوڑا، لیکن تم نے اس کے ساتھ وفا کی، تم نے ماہم کے مو ¿قف کو درست تسلیم کیا، وہ تمہارے دوستوں پر یہ ثابت کرناچاہتی ہے کہ تم اور ماہم ٹھیک ہو، وہ غلط ہیں“۔ آپی نے تفصیل سے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں نے مزید یقین کی خاطر کہہ دیا۔
”لیکن یہ پھر بھی آپ کا اندازہ ہے“۔ میں نے تو اس کے ساتھ وفا اس لیے کی کہ ماہم نے کہیں بھی مجھے دھوکا نہیں دیا اور نہ ہی کچھ ایسا کیا کہ جس کے باعث مجھے شک ہو“۔
”کوئی بھی دل چیر کر نہیں دکھا سکتا کہ اس میں پڑی ہوئی محبت کتنی ہے۔ یہ تو رویے ہی سے معلوم ہوتا ہے نا۔ اب دیکھو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنے باپ کو اذیت میں ڈال کر ہوسٹل میں چھپی بیٹھی ہے۔ تمہاری خاطر نا وہ تو تم سے کہتی رہی ہے کہ آئیں نکاح کرلیں۔ ہمیشہ تم نے ہی اسے مجبور کیا کہ نہیں اپنے باپ کو مجبور کروں۔ اس کی طرف سے تو کچھ منع نہیں تھا، وہ تو تیار تھی۔ اپنا آپ سپرد کر دینے کے علاوہ ایک لڑکی کے پاس ہوتا کیا ہے؟“ آپی نے مجھے پھر سمجھایا۔
”آپی....! آپ جانتی ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ محض ماہم کے ساتھ شادی کر لینا اور اس کی وجہ سے اس کے باپ کو بلیک میل کرنا کوئی مردانگی نہیں ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اس کا باپ جانتے بوجھتے ہوئے میرے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کرے۔ میرے پاپا کی زندگی میں جتنے برس بھی اذیت کے ہیں۔ وہ ایک لمحہ جب اسلم چوہدری اپنی بیٹی میرے ساتھ رخصت کرتے ہوئے اذیت محسوس کرتا، وہی حاصل تھا۔ کیونکہ لمحہ اس لامتنا ہی لمحات کی شروعات ہوتا، جو وہ موت تک محسوس کرتا۔میں جانتا ہوں آپی کہ اس کیمپس میں ماہم کے ساتھ کئی مقامات ایسے آئے ہیں جہاں میں اس کے ساتھ نکاح کر لیتا اور اس کے باپ کو اس وقت معلوم ہوتا جب میں رچڈل پہنچ جاتا۔ مگر میں نے ایسا نہیں چاہا“۔
”اچھا کیا ہے بھائی....! اسی لیے تو ماہم تیری محبت میں پوری طرح ڈوب گئی ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ابان کیوں اس کے باپ سے انتقام لینا چاہتا ہے تو اس سے ماہم کا مان تجھ پر مزید بڑھ گیا ہے“۔ وہ خوشگوار لہجے میں بولیں۔
”اچھا آپ مجھے بتائیں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟“ میں نے حتمی انداز میں پوچھا۔
”تمہیں صرف ٹھیک ہونا ہے۔ صحت مند، جتنی جلدی ہو سکے، اتنی جلدی.... پھر کیا کرنا ہے، کیا ہونا ہے، یہ میں نے سب سوچ لیا ہے، ماہم کے بارے میں صرف تین لوگوں کو معلوم ہے تمہیں مجھے اور میری اس کلاس فیلو وارڈن کو جس کے پاس ماہم ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو نہیں پتہ۔ میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ اتنے دنوں میں کون، کیا کرتا ہے“۔ اس نے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے خود کلامی کے سے انداز میں کہا تو مجھے خیال آیا۔
”اب دیکھیں رچڈل سے کون کون آتا ہے۔ پاپا اکیلے ہی آئیں گے یا ماما کے ساتھ الماس بھی آجائے گی“۔ 
”میں کیا کہہ سکتی ہوں“۔ آپی نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔”اور پھر میرے سامنے پڑے برتن اٹھانے لگی۔ اس نے سارے برتن سمیٹ کر ایک طرح سے وہاں ہر شے صاف کر دی، پھر واش روم میں جا کر ہاتھ دھوئے اور فریش ہو کر میرے پاس آن بیٹھی۔ 
”اوہاں....! مجھے اس کا سیل نمبر دینے کا یاد ہی نہیں رہا“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک کاغذ پر مجھے نمبر لکھ دیا اور بولی۔ ”چاہو تو اس سے بات کر لینا۔ تمہارا سیل ابھی میرے پاس نہیں، میں شام کو لیتی آﺅں گی، اس وقت میں چلتی ہوں“۔
”یہ کاغذ کہیں پھینک دیں، ماہم کا نمبر میرے سیل ہی میں محفوظ کر کے مجھے دے دیں“۔ میں نے کافی حد تک جھلاتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی۔ پھر مسکراتے ہوئے بولیں۔
”بہت بے تاب ہو رہے ہو اس سے بات کرنے کے لیے“۔
”ظاہر ہے بے تاب نہیں ہونا چاہئے“۔ میں نے ڈھیٹ پن سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے باہر کی جانب چلی گئیں۔
ان کے جاتے ہی کمرہ یوں ہو لگا جیسے میں ویرانے میں آگیا ہوں۔ میں نے اس وقت کی دوا لے لی تھی سو میں نے چاہا کہ اب لمبی تان کر سو جاﺅ، میں آرام کی خاطر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔
l l l
رات کا نہ جانے وہ کون ساپہر تھا جب میری آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں دھیمی سی روشنی ہو رہی تھی جو کمرے سے باہر برآمدے میں لگے ہوئے بلب کے جلنے سے آرہی تھی۔ میرا بدن پسینے سے شرابور تھا حالانکہ نہ گرمی کا موسم تھا اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا بھیانک خواب دیکھا تھا جس کے باعث میں پسینے میں نہا جاتا۔ فوری طور پر میں نہیں سمجھ سکا کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ یہ چونکہ معمول سے ہٹ کر تھا اور اس کی سمجھ بھی نہیں آرہی تھی۔ اس لیے میں نے نرس کو بلانے والی بیل دے دی۔ اگلے چند لمحوں میں نرس میرے پاس تھی۔ اس نے آتے ہی روشنی کر دی۔ پھر خوابیدہ سی آنکھوں کے ساتھ میرا بلڈپریشر دیکھا۔ پھر مختلف سوالوں کے بعد اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”گھبرایئے مت مسٹرابان....! آپ کی حالت نارمل ہے شاید آپ کو دواﺅں کے اثر سے پسینہ آگیا۔ اگر آپ کو گرمی لگ رہی ہے تو اے سی چلا دوں“۔
”نہیں میں ٹھیک ہوں.... شکریہ“۔ میں نے کہا اور دوبارہ لیٹ گیا۔ نرس واپس چلی تو میرا دھیان بٹ گیا۔ اپنے بارے میں سوچتے سوچتے میں ماہم کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ اس وقت مجھے شدت سے یاد آنے لگی۔ تو مجھے پھر سے گھبراہٹ ہونے لگی۔ کہیں میں سچ مچ اس سے محبت تو نہیں کرنے لگا ہوں۔ یہ ڈرامہ کہیں حقیقت کا روپ تو نہیں دھار گیا؟ اس سوال کا جواب خود میری حالت تھی۔ دراصل شام کے بعد جب آپی آئی تو وہ میرا سیل فون بھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔ اس میں ماہم کا نمبر محفوظ تھا۔ میں نے اس وقت تو بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور بعد میں جب آپی اور فروا واپس گئیں تو مجھے یاد نہ رہا اور میں دواﺅں کے اثر سو گیا تھا۔ شاید یہ لاشعور کی کارستانی تھی کہ جس نے مجھے اپنے طریقے سے یاد دلادیا۔
میں ماہم کو سوچنے لگا۔ میرا دل چاہا کہ اس سے بات کروں، لیکن اس سے بات کرنے کی خواہش پر یہ سوال فوقیت لے گیا کہ کیا میں حقیقت میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں۔ کیا یہ ماہم کی محبت کی شدت کا اثر ہے کہ میں بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ میرے اندر تو انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور میں اس آگ کو لے کر ان کے سارے خواب مسمار کر دینا چاہتا تھا۔ ماہم تو میرے لیے ایک راستہ تھی، جس پر چل کر میں نے اسلم چوہدری تک پہنچنا تھا اور وہ میں پہنچ گیا تھا۔ کیا میں راستے کے حسن میں کھو کر رہ جاﺅں گا اور جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں، وہ کہیں بہت پیچھے رہ جائے گا، اگر ماہم مجھ سے یہ مطالبہ کر دیتی ہے کہ میں اس کے باپ کو معاف کردوں تو کیا میں ایسا کرلوں گا۔ کیا وہ چاہے گی کہ میں اس کے باپ کو نقصان پہنچا دوں۔ کہیں اس نے آپی کی بات اس لیے تو نہیں مان لی کہ میرے اور اسلم چوہدری کے درمیان ایک ریشمی دیوار بن جائے ، جسے میں چاہوں بھی تو گرانہ پاﺅں۔ خیالات تھے کہ امنڈتے چلے آرہے تھے اور میں اپنے آپ میں شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا جارہا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ اب تک محض کھیل تماشے میں وقت گزرا تھا لیکن اب جو وقت آنے والا تھا، وہ میرے لیے بہت کٹھن، صبر آزما اور مشکل تھا۔ میرے دائیں جانب اگر محبت کی ٹھنڈک تھی تو بائیں جانب انتقام کی سلگتی ہوئی آگ تھی۔ یہی سوچتے ہوئے ایک خیال میرے دماغ میں سرائیت کر گیا کہ کیا میں نے ماہم کی محبت کو قبول کر لیا ہے کہ میں اس محبت کی ٹھنڈک محسوس کر رہا ہوں؟ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ میری زندگی کے کمزور ترین لمحات تھے، جب میں کوئی فیصلہ کرنے یا پھر فیصلے کو قبول کرنے میں پس و پیش کر رہا تھا۔ ماہم کی محبت میں شک اب بھی لپٹا ہوا تھا جسے میں یکسر نظر انداز میں کر سکتا تھا۔ میں نہ جانے کب تک سوچتا رہا تھا اور کب نیند نے مجھے اپنی بانہوں میں لے کر ہلکورلے دینا شروع کر دیئے تھے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا اور میں خود سے غافل ہو گیا۔ خیالات کے تانے بانے یونہی الجھے ہوئے رہ گئے۔
جس وقت میری آنکھ کھلی، اس وقت کمرے میں اجالا تھا۔ فروا میرے قریب بیٹھی ہوئی تھی اور فرح آپی حسب معمول کھانے پینے کے برتنوں میں الجھی ہوئی تھی۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر فروا سے پوچھا۔
”یہ عاشق نامدار ابھی جاگا ہے کہ نہیں، نہیں جاگا تو اسے جگاﺅ تاکہ کچھ کھاپی لے .... پھر میڈیسن کا وقت ہو جانا ہے“۔
”یہ جاگ گئے ہیں اور اُلو کی طرح دیدے پھاڑ کر آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں“۔ فروا نے دھیمے لہجے میں ہانک لگائی تو آپی نے پلٹے بغیر اسی نارمل لہجے میں کہا۔
”اُلو مت کہو.... ورنہ اُلو برا مان جائیں گے.... ابان....! بھئی اٹھو اور منہ ہاتھ دھولو“۔
”کیا میں اٹھ سکوں گا؟“ میں نے ہلکے سے خود کلامی کے انداز میں کہا تو آپی پلٹ کر میرے قریب آگئی اور تقریباً ڈانٹ دینے والے انداز میں کہا۔
”خدا کے لیے سیریس قسم کے مریض بننے کی ناکام کوشش مت کرو۔ ہلو جلو گے تو قوت پکڑو گے۔ اٹھو، چلو میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ“۔
”نہیں آپی، میں چلا جاﺅں گا“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو فروا خوشگوار لہجے میں ہنستے ہوئے بولی۔
”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“۔
میں نے اس کے تبصرہ پر کچھ نہ کہا اور واش روم چلا گیا۔ جب تک میں واپس آیا تو آپی نے ناشتہ بیڈ پر سجا دیا تھا۔
”یہ فروا تو ناشتہ کر چکی ہے۔ میں نے کرنا ہے۔ آﺅ جلدی سے بڑی بھوک لگی ہے“۔ آپی نے کہا تو ہم دونوں کھانے لگے۔ اس دوران آپی نے پوچھا۔
”تو پھر رات کتنی دیر تک ماہم سے باتیں چلیں؟“
”اچھا، تو اس لیے آپ مجھے عاشق نامدار کہہ رہی تھیں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تو اور کیا.... جو بندہ دن چڑھے تک غافلوں کی طرح سوتا رہے ، ظاہر ہے وہ ....“ آپی نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”ضروری نہیں کہ وہ باتیں ہی کرے۔ میں نے ماہم کے ساتھ کوئی بات نہیں کی“۔
”کیوں....؟“ وہ حیرت سے بولیں تو میں نے صاف گوئی سے کہا۔
”میں دراصل کچھ اور ہی سوچتا رہا۔ اس سے پہلے کہ ماہم کی محبت میری راہ میں حائل ہو جائے، میں اس سے بچ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اب جبکہ ساری بات کھل گئی ہے، اسلم چوہدری میرے مدِمقابل آگیا ہے، تو اب کس چیز کی پرواہ، میں اسلم کو اس حد تک زچ کر دوں گا کہ ....“
”غلط ٹریک پر چل پڑے ہو بھائی....! ماہم تمہارے راستے میں حائل نہیں ہے، میں یہ دعویٰ سے کہتی ہوں“۔ آپی نے گہری سنجیدگی سے کہا تو میں اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
”آپی....! اختلافات جس قدر بھی ہوں۔ خون آخر خون ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ کو اپنے ہی سامنے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ شاید آپ اسے نہیں سمجھی ہو۔ میں نے بہت غور کیا ہے۔ وہ کوئی سیدھی سادی لڑکی نہیں ہے، میں اس کی محبت سے بھی انکار نہیں کرتا، لیکن یہ بات میرے دماغ میں نہیں اترتی کہ وہ اسلم چوہدری سے انتقام لینے کے لیے میرا ساتھ دے گی یا پھر کم از کم میر ی راہ میں حائل نہیں ہو گی“۔
”تم ٹھیک کہتے ہو ابان.... لیکن میرا وجدان مجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ وہ جو کچھ کر رہی ہے۔ اس سے تو میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہاری راہ میں حائل نہیں ہو گی.... اور ہو سکتا وہ تمہاری مدد کر رہی ہے۔ اس وقت اسلم چوہدری اس کی تلاش میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہے۔ وہ یہاں آنے اور تم سے ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی، مگر میں نے اسے یہاں نہیں آنے دیا۔ ممکن ہے اس کا کوئی بندہ یہاں نگرانی کر رہا ہو“۔
”وہ تو اس کے سیل فون سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس وقت کہاں ہے“۔ میں نے اس کی توجہ مبذدل کرانی تووہ بولی۔
”بھائی....! شاید تم نے غور نہیں کیا، نہ صرف اس کا سیل بلکہ اس کا نمبر بھی بدلا ہوا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں سب سے پہلے تھی۔ خیر....! تم اس سے بات کر لو“۔
”وہ کیوں نہیں کرسکی۔ وہ کرلیتی“۔ میں نے ایک خیال کے تحت کہا۔
”میں نے منع کیا تھا کہ جب تک ابان تم سے رابطہ نہ کرے۔ تم نے نہیں کرنا۔ یہ ایک طرح اس کا ٹسٹ ہے اور دیکھو اس نے تمہیں کال نہیں کی۔ چاہے اس کے دل میں کتنی خواہش ہے“۔ آپی نے مان سے کہا۔
”اوکے....! میں کرلوں گا اسے کال“۔ میں سکون سے بولا۔
”اور بن جاﺅں گا ، عاشق نامدار....“ فروا نے دھیرے سے کہا تو میں ہنس دیا۔
”اب ایسا بھی عاشق نہیں ہے میرا بھائی۔ تم اپنی چونج بند رکھو“۔ آپی نے تیزی سے کہا۔ اس سے پہلے کہ فروا کوئی جواب دیتی ، دروازے پر دستک ہوتی اور پھر سلیم کا چہرہ مجھے دکھائی دیا۔
”آجاﺅ سلیم....“ آپی نے تیزی سے کہا تو وہ اندر آ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا اور میری طرف دیکھ کر بولا۔
”کیسے ہو آپ....؟“
”میں ٹھیک ہوں تم سناﺅ.... سبزہ زار کیسا ہے۔جندوڈا....“
”سب ٹھیک ہے سر، اور آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں“۔ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔ پھر کافی حد تک جھجکتے ہوئے بولا۔ ”میں سر باہر ہوں۔ پھر آجاتا ہوں“۔
”نہیں اگر تم کوئی بات کرنا چاہتے ہو تو کہو“۔ آپی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”فرح بی بی ، بات تو ایسی کوئی نہیں ہے۔ وہ اسد کا فون آیا تھا مجھے .... وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے“۔
”تو مل لینا تھا“۔ میں نے تیزی سے کہا۔
”میں بس وہی پوچھنے آیا تھا، باقی پیر بخش سے میری تفصیلی بات ہوئی ہے۔ بس وہ آپ کا انتظار کر رہا ہے“۔
”وہ کون ہے اور کیوں....؟“ آپی نے پوچھا تو سلیم نے اختصار سے پیر بخش کے بارے میںبتا دیا اور پھرکیوں کا جواب دیتے ہوئے بولا۔ ”اصل میں کیمپس پرکاشف وغیرہ کی گرفت کم از کم ہمارے لیے اچھی ثابت نہیں ہوئی۔ وہ دوسرا گروپ جس نے مذہبی جماعت کا لیبل لگا رکھا ہے۔ اندر سے تو وہ بھی کاشف وغیرہ کی طرح ہیں، سوچ یہ کہ ان دونوں کو آپس میں لڑوا کر کسی تیسرے کو آنے کا راستہ دیا جائے“۔
”یہ طویل راستہ ہے سلیم.... تم لوگوں نے جو ٹریک چنا ہے ہمیں اس کا کیا فائدہ۔ تم اسد سے ملاقات کر کے دیکھو۔ پھر میں تمہیں بتاﺅں گاکہ کیا کرنا ہے۔ اس کی سنو وہ کیا کہتا ہے“۔ میں پُرسکون انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے سر، میں ابھی اسے فون کر کے کہیں بلوا لیتا ہوں۔ پھر جو ہو گا وہ شام تک معلوم ہو جائے گا“۔ سلیم نے حتمی لہجے میں کیا اور سلام کر کے چلا گیا ۔ تو میں فرح آپی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”آپی.... آپ بھی یوں اکیلی یہاں نہ آیا کریں۔ دشمن کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کب....“
”دشمن کی ایسی کی تیسی .... میری ایک گاڑی کے ساتھ پانچ گاڑیاں مزید ہوتی ہیں اور اس سے بھی دو گنا بندے یہاں اردگرد تعینات ہیں ۔ بھائی....! ہم کوئی لاوارث تو نہیں کہ کوئی اٹھے اور ہماری طرف انگلی اٹھا سکے۔ میں تو اس کی انگلی کاٹ دوں“۔آپی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ”خیر ....! میں اب چلتی ہوں، اسد جو بات بھی کرے اور اس پر کوئی بھی فیصلہ دینے سے پہلے ایک بار مجھ سے بات ضرور کر لینا۔ میں کیمپس میں کچھ اور ہی گیم چلا رہی ہوں“۔
”گیم؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں گیم....! میں اس کی تمہیں تفصیل بتاﺅں گی، لیکن رات کو.... تم ماہم سے بات کر لینا۔ اس سے متنفر ہونے کی ضرورت نہیں“۔
”ٹھیک ہے.... کر لوں گا بات....“میں نے کہا تو فروا اٹھ گئی، دونوں نے میری طرف دیکھا الوداعی ہاتھ ملایا اور باہر چلی گئیں اور میں پھر سے کمرے میں تنہا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے سیل فون اٹھا کر ماہم کا نمبر دیکھا تو اس میں پرانے نمبر کے ساتھ ماہم نیو کے نام سے اس کا نمبر محفوظ تھا، میں نے اسے پش کر دیا، کچھ دیر بیل جاتی رہی، پھر فون پک کر لیا گیا اور ماہم کی گھبرائی ہوئی حیرت زدہ پُراشتیاق آواز سنائی دی۔
”بہت دیر کی مہربان آتے آتے....“
”کیسی ہو....؟“ میں نے پوچھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں.... بقولِ فرح آپی.... میں زیر زمین ہوں.... آپ کے فون کے انتظار کے سوا میرے پاس کوئی کام نہیں ہے اور نہ کوئی ٹینشن ہے“۔
”مطلب مزے میں ہو....“ میں نے یونہی کہہ دیا۔
”بالکل ....! یہ قید میں نے خود اپنی مرضی سے قبول کی ہے“۔ اس نے کافی حد تک شوخ لہجے میں کہا۔
”اردگرد کی کوئی خبر نہیں رکھتی ہو....“ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا۔
”وہ ساری خبریں جو میرے اور آ پ کے متعلق ہیں۔ ان سب سے آگاہ ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ پاپا اور زریاب انکل کی آپس میں ٹھن چکی ہے۔ پاپا کی طرف سے شدت اس لیے نہیں ہے کہ وہ میرے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہی کوئی شدت والا عمل ہو گا.... آپی کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے کہ میں چند دن” زیر زمین“ ۔چلی جاﺅں۔ اس سے کم از کم یہ فائدہ ہے کہ آپ کے ٹھیک ہو جانے تک کی مہلت مل جائے گی“۔
”اور کیمپس کے اندر....؟“ میں نے پوچھا تو وہ کہنے لگی۔
”خاموشی ہے.... اسد بے چارہ اب کاشف کی بلیک میلنگ میں آگیا ہوا ہے۔ یہاں تو وہ تنہا ہی ہے نا.... پہلے اسے آپ کا سہارا تھا۔ اب اسے ایک طرف کونے میں لگا کر بے دست و پا کر رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ یوں آہستہ آہستہ اسے اپنے گروپ میں سے نکل پھینکیں گے۔ رابعہ بے چاری تو اس کے ساتھ ہو گی۔ جہاں وہ ہو گا۔ رہی تنویر کی بات تو آپ کو معلوم ہے۔ جدھر پلڑا بھاری دیکھا یہ لڑھک کر اُدھرہو جاتا ہے۔ اصل میں کاشف اور اس کی پشت پر جوسیاسی قوت تیزی سے کیمپس پر گرفت چاہ رہے ہیں۔ یہ تم پر حملہ ہونے کی وجہ سے پولیس یہاں انوالو ہوئی ہے تو چند دن سکون ہو گیا ہے .... ورنہ.... وہ اپنے ہر مخالف کو کیمپس چھوڑ جانے پر مجبور کررہا ہے۔ اس لیے انہیں جوبس کرنا پڑے“۔
”تم تو خاصی باخبر ہو“۔
”دراصل رخشندہ میرے رابطے میں ہے۔ میں ایک دوسرے فون سے اس کے ساتھ رابطے میں ہوں“۔
”رخشندہ تو ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
”وہ کاشف گروپ کی تھی، لیکن اسے بھی دکھایا کچھ تھا اور اب کر کچھ رہے ہیں۔ وہ بہت ذہین لڑکی ہے۔ فوری طور پر اس نے خود کو چھپا لیا۔ وہ ان کے ساتھ تو ہے، لیکن ان سے متنفر ہے۔ جو کچھ کاشف کرنے جارہا ہے نا وہ اسے قطعاً پسند نہیں“۔
”یہ کاشف کر کیا رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ دھیرے دھیرے اس کے دوست اس سے الگ ہو رہے ہیں؟“ میں نے تبصرہ کیا ۔
”وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ جیسے جیسے وہ قوت پکڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ نئے نئے لوگ شامل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پرانے تو اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی برابری کرتے ہیں۔ نئے لوگوں پر تو وہ حکم چلاتا ہے وہ اس کی راہ میں کوئی رکاﺅٹ نہیں ہیں“۔
”ہاں....! تم ٹھیک کہتی ہو۔ خیر....!تم خوش ہونا یہاں میڈم کے پاس“۔
”پنجرہ چاہے سونے کا ہو۔ قید تو پھر قید ہوتی ہے۔ میں پاپا سے الگ رہنا چاہتی تھی۔ یہ اچھا ہو گیا کہ میں یہاں ہوں۔ ورنہ میں اب تک کچھ نہ کچھ کر بیٹھتی“۔
”آپی نے تمہیں سب کچھ بتا دیا۔ اس پر تم....“ میں نے کہنا چاہا مگر اس نے میری بات کاٹی اور کہتی چلی گئی۔
”ابان....! پہلے پہلے جب آپ میرے ساتھ شادی کی بات کر کے، وعدہ کر کے عین وقت پر پھر جاتے تھے نا.... تو مجھے بہت دکھ ہوتا تھا۔ تب احساس ہوتا تھا کہ درمیان میں کوئی ایسی بات ہے جو آپ چھپا رہے ہو، لیکن کیا.... اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپ بھی عام لڑکوں کی طرح مجھے سے فلرٹ کررہے ہو ، لیکن جب مجھے فرح آپی سے اصل حقیقت معلوم ہوئی تو میری نگاہ میں آپ کی عزت اور بڑھ گئی۔ آپ چاہتے تو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر بہت کچھ کر سکتے تھے۔ میں مانتی ہوں کہ آپ کو بہت سارے مواقع ملے، کچھ میں نے دیئے، لیکن آپ نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ میں جتنا بھی سوچتی ہوں۔ آپ کی قدر میری نگاہ میں اتنی ہی بڑھ جاتی ہے“۔
”ماہم، جن سے محبت کی جاتی ہے نا.... انہیں دھوکا نہیں دیا جاتا، یہ مسلک ِمحبت کے خلاف ہے۔ انجانے ہی میں سہی، مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے، میں اس کا اعتراف کرتا ہوں، لیکن میں جس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں۔ اس پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میں بس اس میں پھنسا ہوا ہوں“۔ میں نے صاف گوئی سے کہا۔
”میں آپ کی مجبوری نہیں بنوں گی۔ ہاں، میں پاپا کو قائل ضرور کروں گی کہ وہ مجھے آپ کے ساتھ شادی کی اجازت دے دیں۔ اس کے بعد اگر وہ اجازت دے دیتے ہیں، آپ کی اہمیت کومان جاتے ہیں تو میں آپ سے درخواست کرنے کا حق رکھتی ہوں۔ ورنہ نہیں!“ وہ بھی صاف گوئی سے بولی۔
”میں اسی لیے تذبذب میں رہا۔ ورنہ میرے پاس بہت شارٹ کٹ راستہ تھا۔ تمہیں معلوم ہے کہ یہاں آتے ہی میراگروپ بن گیا تھا اور میں اس گروپ کو بہت اچھی طرح استعمال کر سکتا تھا۔ اب بھی صرف اس گروپ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی دیر ہے جو پہلے ہی تمہارے پاپا کے خلاف ہے“۔
”ابان....! میں کہہ سکتی ہو ں کہ ساری دنیا کو ایک طرف چھوڑیں، جو ہونا تھا، وہ ہو چکا، ہم دونوں ایک ہو جائیں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔ پُرامن.... پُرسکون۔ جس میں نفرتوں کا شائبہ تک نہ ہو“۔ وہ گہرے انداز میں بولی۔
”مگر ہم اپنوں سے الگ نہیں رہ سکتے، میں اپنے پاپا کو کیا جواب دوں گا۔ جن کے سامنے میں نے بلند بانگ دعوے کیے اور یہاں آ کر.... کچھ بھی نہ کرسکا۔ مجھے بھی تو بتاﺅ، میں کیا کروں“۔ میں نے بھی پوری سنجیدگی سے کہا ۔
”ہم اسے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وقت ہمارے دامن میں کیا ڈالتا ہے۔ تاہم ہمارے درمیان یہ تعلق اتنا ہی مضبوط رہنا چاہئے۔ کچھ بھی ہو جائے۔ شک اور بدگمانی ہمارے درمیان میں نہیں آئے“۔ وہ یوں بولی جیسے اس کی آواز بہت دورسے آرہی ہو ۔
”چلو، میں مان لیتا ہوں۔ ہم اپنی قسمت وقت پر چھوڑ دیتے ہیں“۔ میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ پھر اس کے بعد ہم کافی دیر تک کیمپس میں ہونے والی سیاست، اپنے اردگرد لوگوں کے رویے اور ماحول کے بارے میں بات کرتے رہے یہاں تک کہ دوپہر ہونے کو آگئی اور ہم نے اطمینان بھری تشنگی کے ساتھ فون بند کر دیا۔
شام سے ذرا پہلے سلیم کا فون آگیا کہ اس کی اسد سے ملاقات ہو گئی ہے۔ ان کے درمیان ہونے والی ساری باتوں کا لب لباب یہی تھا جو مجھے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا۔ سلیم نے دانش مندی یہ کی تھی کہ اس نے اسد کو اپنے ساتھ رابطہ رکھنے کو کہہ دیا تھا۔ بظاہر تو سلیم سے اسد نے اس لیے رابطہ کیا تھا کہ میرے بارے میں جان سکے۔ درحقیقت اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کس دلدلِ میں جا پھنسا تھا۔ اسد کے ساتھ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہوئی تھی۔ کسی بھی گروہ میں جب کوئی بندہ شامل ہو تا ہے وہ اپنی ہی کسی مجبوری کے تحت شامل ہوتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ محکومیت کی اَن دیکھی زنجیروں میں جکڑتا چلا جاتا ہے۔ اسے احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ واپسی چاہتا ہے یا پھر اپنی مرضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد فقط دو راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو بغاوت کر کے اپنا آپ ختم کر لے یا پھر ان کو مٹا کر اپنی حاکمیت قائم کرلے۔ اسد کے پاس جذبات تھے۔ حوصلہ تھا اور جرا ¿ت بھی تھی لیکن اس کی پشت پر کوئی نہیں تھا۔ نہ کوئی سیاسی خاندان اور نہ ہی کوئی ایسا مضبوط ہاتھ جو اسے سہارا دے سکے۔ وہ ڈانوں ڈول ہو گیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ اسے سنبھال لیا جائے۔ کاشف نے اسے میرے خلاف استعمال کرنا چاہا تھا، لیکن وہ نہ ہو سکا۔ اب یہ ہتھیار میں نے استعمال کرنا تھا، یہ کیسے ہوتا اس کی مجھے سمجھ نہیں تھی۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *