Wednesday, 4 October 2017

کیمپس ..امجد جاوید.. قسط نمبر16

کیمپس
امجد جاوید

قسط نمبر16
بعض اوقات زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں انسان مجبور محض بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ اپنی پوری قوت سے کوشش کرتا ہے مگر حالات و واقعات اس کی طاقت و قوت کو یوں زائل کر کے رکھ دیتے ہیں جیسے پانی میں نمک اپنی حیثیت کھو دیتا ہے، اس کے برعکس انسان کچھ ارادے سوچتا ہی ہے تو حالات و واقعات اپنی صحت یوں تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں یو ں لگتا ہے وہ سب انسانی ارادے کے انتظار میں تھے۔ جونہی انسان نے ارادہ کیا اور حالات و واقعات کی ترتیت اور نیت ویسی ہی ہونا شروع ہو جاتی ہے، جسے انسان چاہ رہا ہوتا ہے۔ سا میں نہ طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے اور نہ قوت زائل ہوتی ہے یوں جیسے انسان ہوا کے دوش پر شہر تمنا کا تماشائی ہو جاتا ہے۔ میں جب اچڈل سے چلا تھا، اس وقت میرے دل و دماغ میں صرف اور صرف اسلم چوہدری کے خلاف نفرت تھی اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ اس نے میرے پاپا کے ساتھ منافقت کر کے دھوکا دیا تھا۔ یہ ظلم تھا جو اس نے کیا۔ جس کی پاداش میں میرے پاپا کو ایک طرح سے جلا وطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔ اسلم چوہدری کے علاوہ میرے دل میں نہ کسی کے لیے نفرت تھی اور نہ ہی میں کس پر ظلم کا ارادہ رکھتا تھا۔ اب زریاانکل نے اسلم چوہدری تک پہنچنے کا جو طریقہ وضع کیا تھا اس میں ماہم کا وجود اہمیت اختیار کر گیا۔ میرے دل میں ماہم کے لیے کہیں بھی نفرت نہیں تھی۔ بلکہ میں اس کے بارےم یں جب بھی سوچتا تو مجھے سا سے ہمدردں محسوس ہوتی تھی۔ اب بے چاری کا کیا قصور اس کا جرم تو یہی ہے ناکہ وہ اسلم چوہدری کی بیٹی ہے۔ ماہم کو تو خود معلوم نہیں تھا کہ اس کا پاپا کتنا بڑا جرم کر چکا ہے۔ ماہم سے ہمدردی ہی نے میرے اندر کہیں بھی اس کے لیے منفی جذبات کو ابھرنے نہیں دیا، لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ اس قدر ساتھ ہونے کے باوجود میں اس کے لیے کوئی ایسے نرم اور شگفتہ جذبات رکھتا تھا جو میری مجبوری بن جائے۔ ماہم نے اگر فرخ کے خلاف لڑائی لڑی تھی تو وہ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ وہ کچھ بھی رہی ہو میں اس پر خوش تھا کہ اس میں اتنی بہت اور جرات ہے کہ وہ معاملات کو خود دیکھ سکے۔ اس کی لڑائی کو اگر اسلم چوہدری نے کیش کرانے کی کوشش کی تھی اور باپ بیٹی کا آپس میں اختلاف ہو گیا تھا تو اس کا میری ذات پر کیا اثر۔ رابعہ اور رخشندہ نے ماہم نے خلاف جو کچھ بھی کہا، یہ کاشف کی اس سوچ کا عکس تھا جو وہ ماہم کے بارے میں رکھتا تھا۔ میں پوری طرح جان گیا تھا کہ کاشف اب اگر کسی سے خائف ہے تو وہ ماہم ہے۔ اس لیے وہ اس کا پتہ صاف کرنے کے درپے تھا۔ یہ کاشف کی اپنی بقا کے لیے مجبوری تھی اور اسے کرناچاہئے تھی۔
میں اور ماہم جس مقام پر کھڑے تھے، وہاں ماہم تو میرے ساتھ محبت کی دعویدار تھی ، لیکن میرے اند اس کے لیے کیا جذبات تھے، اس پر میں کوئی ختمی فیصلہ دے ہی نہیں پارہا تھا۔ میرے ذہن میں جو منصوبہ تھا وہ تو یہی تھا کہ میں اپنے طورپر ماہم کو اپنی جانب مائل کروں گا چاہے اس کے لیے مجھے کسی تھرڈ کلاس عاشق کا سا کردار کیوں نہ نبھانا پڑے اور پھر اسے قابو میں کرنے کے بعد اس کے ذریعے اسلم چوہدری کے ساتھ جو بھی ہو سکتا تھا وہ میں کرتا۔ اس کے بعد ماہم کو اپنی زندگی میں شامل کر کے اس مان اور اہمیت دیتا۔ اس کی قدر کرتا۔ گویا اسلم چوہدری سے انتقام کے عوض ماہم کو عزت و مقام دینا تھا اور یہ ایک سودا تھا جو میں نے کرنا تھا، لیکن ....! یہاں کیمپس میں حالات واقعات اس طرح پرت در پرت کھلنے گئے کہ ماہم از خود میرے نزدیک آتی چلی گئی اور وہ میری محبت کی دعویدار بن گئی۔ یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ جواسے بغیر محنت و مشقت کے مل جائے، اس کے بارے میں انسانی اتنا حساس اور پُرکشش نہیں ہوتا جتنا اسے ہنا چاہئے۔ میرے لیے اس وقت ماہم کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ سمندر کی بپھرتی ہوئی لہروں کی مانند میری ذات کے ساحل سے آٹکراتی اور میں ریت کے ساحل کی مانند اس کی بے تابیوں کو دیکھ کر محض خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ جس طرح لہروں کے بپھرنے کی کوئی وجہ ہوتی ہے اور ساحل کی خاموشی میں کوئی راز پنہاں ہوتا ہے۔ اسی طرح اب وہ وقت آگیا تھا جب مجھے ماہم کی محبت کا جائزہ لینا تھا۔ اگر چہ یہ کوئی اچھا رویہ نہیں تھا کہ میں اس کی محبت بارے جانچ پڑتال کرتا لیکن میں نے جوانتقام کی عینک لگائی ہوئی تھی، مجھے تو اس میں وہ کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ حالات کا دھارا میرے لیے کچھ معنی رکھتا تھا۔ جیسے ہر بندہ ان حالات کو اپنے اپنے نکتہ نظر سے نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ اس کے مطابق عمل کرنے کا خواہاں بھی تھا اور میرے لیے حالات جیسے بھی ہوں، ان میں محتاط رہنا اشد ضروری تھا۔ میرا وہاں پر ہونا ہی پانی پر نقش کی مانند تھا۔ کوئی بنیاد نہیں تھا۔ میں ایسی بیل کی مانند تھا جو کہیں بھی جڑ نہیں رکھتی تھی اور کیمپس کے پانی میں تیر رہا تھا۔
”سرجی....! خیرت تو ہے نا اتنی گہری سوچ....“ جندوڈا نے پوچھا تو میں چونک گیا۔ وہ میرے قریب چائے کا کپ لے کر کھڑا تھا اور میری طرف گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے چائے کا مگ لیا اور عام سے لہجے میں کہا۔
”کچھ نہیں یار، بس ایسے ہی زندگی کے رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا“۔
”سائیں....! ان رنگوں کو دیکھیں ضرور مگر ان میں الجھنے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ کیونکہ رنگ اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں“۔ اس نے کہا تو میں چونک گیا۔ مجھے تھا یہ ادھیڑ عمر جندوڈا زندگی کے بارے کافی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔
”کہتے تو تم ٹھیک ہو یار، انسان جتنا مرضی ان رنگو سے بچ جائے مگر یہ چڑھتے ضرور ہیں۔ ان سے بچا نہیں جا سکتا“۔ میں نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے کہا۔
”رنگ تو ایک ہی سائیں، اور اس ایک رنگ کو اپنانا پڑتا ہے۔ انسان کو چاہے معلوم نہ بھی ہو، پھر بھی ہ ایک ہی رنگ میں بس رہا ہوتا ہے“۔ جندوڈا نے نہ جانے کیا سوچ کر میرے چہرے پر دیکھا اور بڑی آسانی سے کہہ دیا۔
”میں سمجھا نہیں، کیا تم مجھے یہ بات کھل کر سمجھا سکتے ہو؟“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو وہ فوراً بولا۔
”دیکھی، میں آپ کو سمجھاتا ہوں، دیکھنے کی حد تک ایک سفید رنگ ہے اور ایک سیاہ رنگ ہیں۔ انسان سے دو رنگ میں دیکھتا ہے، لیکن ان کی اصل ایک ہے انہی میں سارے رنگ پڑے ہیں۔ دیکھیں....! سفید رنگ سے سارے رنگ پھٹ پڑتے یں اور سیاہ رنگ میں سارے رنگ خم ہو جاتے ہیں۔ آپ جس کو چاہئے ابتدار کہہ لیں اور جس کو چاہئیں انتہا، سیاسی سے سفیدی نکلتی ہے۔ ظلمت ہی سے نور نکلتا ہے۔ سیاسی سےنور کو پھیلانے میں پہلے سارے رنگوں کو اپنے اندر اتارنا پڑتا ہے۔ پھر ہی بندہ اس قابل ہو پاتا ہے کہ وہ رنگوں کو اچھال سکے۔ یہاں تک کہ پھر باقی سفیدی سج رہتا ہے اور یہ جان لیں کہ سیاسی سے سفیدی تک کا سفر تو ہوتا ہے، لیکن جو سفید اپنا چکا، وہ سیاہی کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ کیونکہ سیاہی جتنی بھی ہو، سفیدی کی ہلکی سی مقدار اپنا آپ واضح کر دیتی ہے لیکن سفیدی میں سیاہی کہیں بہت زیادہ ہتا رہیں ہ وت پھر بھی ظلمت نہیں ہوتی، محض رنگ بدل جاتا ہے“۔
”واہ جندوڈا....! تم تو بڑے فلا سفر نکلے ہو، رنگوں کے بارے بڑا فلسفہ بیان کر ڈالا ہے تو نے۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے سائیں۔ صرف اﷲ سائیں کی اس پھیلی ہوئی کائنات کو ذرا سا غور سے دیکھنے کی بات ہے۔ میرے سامنے دن رات کا سلسلہ جاری ہے۔ ظلمت سے نور کی طرف، نور سے سیاہی کی طرف اور ان کے درمیان ستاروں کی جگمگاہٹ ، چاند کا چمکنا، ان پر ذرا سا غورکر لیں تو سمجھ میں آجاتا ہے۔ آنکھیں بند کرکے اپنے اندر جھانک لیں“۔
سارے رنگ یہاں بھی ہیں۔ کیونکہ یہ سارے رنگ الجھن کے ہیں، اسی کی عطا ہے، یہ ہم ہیں جنہوں نے سیاہی اور سفیدی کاالٹ پھیر کیا ہوا ہے“۔ جندوڈا جذب سے کہتا چلا گیا تو میں نے سوچ کر ایک بات اس سے پوچھی ۔
”یار جندوڈا، ایک بات تو بتا ، یہ محبت کا رنگ کیا ہوتا ہے۔ اس کا بھی کچھ پتہ چلتا ہے کہ نہیں“۔
”سائیں، میں سمجھ گیا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ آپ چاہئیں میرے جیسے اَن پڑھ کا مذاق اڑائیں لیکن محبت کا رنگ وہیں گہرا ہوتا ہے جہاں بے وفائی کا رنگ ہو۔ کھو جانے اور چھن جانے کا خوف ہی محبت کی بیلوں کو گہرا سبز رکھتا ہے۔ اس پر امیدوں کے خوابوں کے اور خواہشوں کے رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بیل سلوکھ کر پیلی ہو جائے گی اور پھر جھا جائے گی، یا پھر اس کی آبیاری ہوگی تو یہ بیل پھول سے پھل لے آئے گی۔ یہ فطرت کا اصول ہے اور فطرت اپنے اندر بڑے رنگ رکھتی ہے“۔ اس نے بڑی گہری بات کی تھی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ اس نے تو میرے اور ماہم کے مقام کا تعین کرکے رکھ دیا تھا۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور دلچسپی سے پوچھا۔
”جندوڈا ....! تم اتنا گہرا کیسے سوچ لیتے ہو؟“
”سائیں....! یہ کوئی گہرائی نہیں ہے۔ فطرت کو دیکھیںاور اس پر غور کریں۔ سب سمجھ میں آجاتا ہے۔ جاں تک میری بات ہے تو میری جوانی کا زیادہ حصہ صحراﺅں میں گزرا ہے۔ میں نے فطرت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی اور موت کو بھی۔ فطرت میں کھو جائیں تو زندگی اپنے سارے راز اس پر واضح کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہی تو رب تعالیٰ چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آﺅ غور کرو فطرت پر ۔ پھر انسان اپنی محدود سوچ کے ساتھ اس کے بنانے والے کو تلاش کرتا ہے۔ یہی انسان اور رب کا تعلق ہے“۔
”تمہارے خیال میں انسانی جذبے بھی تو فطری ہوتے ہیں۔ ان کے رنگ ہوتے ہیں۔ کسی کے رویے ہی سے اس کے من کا پتہ چتا ہے۔ ایسا ہی ہے نا....“ میں نے پوچھا۔
”سائیں....! فطرت کو جہاں سے دیکھیں، وہیں سے رنگ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ رویے سے جذبے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ جذبات اور رویے سے ارادوں کا سراغ مل جاتا ہے“۔ اس نے اپنی فطری ساردگی میں یہ بات کہی تو میں ایک دم سے ان ماورائی علوم کے بارے میں سوچنے لگا کہ جو انسان کو سمجھنے کے لیے خود انسان نے ہی بنائے۔ یہاں تکہ کہ اب جدید دور میں وہ سائنسی طرز فکر کی حیثیت اختیار چکے ہیں۔ میں شاید کافی دیر تک خاموش رہا تھا۔اس لیے جندوڈا کی بات پر چونک گیا۔ 
”سائیں بے فکر کے گھوڑے خالی میدان میں مت دوڑائیں۔ اس راہ کا انتخاب کریں جہاں خطرات پوشیدہ ہوں۔ یہی زندگی کا سقب ہے۔ ورنہ بزدل ؟؟؟ آپ کو ڈراتے رہیں گے۔ خالی میدان میں دوڑنے والے گھوڑے کچھ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ آگے بڑھیں اور ان گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو جائیں“۔ جندوڈا نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا تو اس نے میرے بہت سارے مسئلے انجائے میں حل کر دیئے۔
”جندوڈا....! تمہارے ساتھ بات کر کے بہت مزہ آیا۔ ہم پھر کسی وقت بات کریں گے۔ فی الحال تم ناشتہ بناﺅ۔ مجھے کیمپس جانا ہے“۔ یہ کہتے ہوئے میں اٹھ گیا۔
”میں تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آیا تو وہاں پر سلیم بھی تھا۔ وہ خلاف معمول کافی فریش لگ رہا تھا۔ تب میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”خیر تو ہے نا، بڑے تیار ہو، کہیں جانے کا ارادہ ہے“۔
”جی ہاں جناب ، آج جھے زریاب صاحب سے حکم ملا ہے کہ اس اسلم چوہدری سے ملوں، میں یہی بتانے آپ کے پاس آیا تھا“۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں الجھ گیا۔ اس نے سمجھنے کی خاطر پوچھا۔
”میں ؟؟؟ صاف بات کہو، یہ کیا چکر ہے“۔
”سر چکر کچھ نہیں ہے۔ اسلم چوہدری اپنی بیٹی ماہم کی طرف سے پریشان تو ہے۔ وہ ابان علی کے بارے میں بھی حیران ہے۔ اس کو یہ تو معلوم ہے کہ ابان علی صرف زریاب صاحب کا بیٹا ہے۔ اسلم چوہدری اب تک یہی سمجھتا رہا کہ ماہم کا زریاب کے بیٹے ابان علی کے ساتھ کوئی چکرنہیں رہا ہے۔ اسلم چوہدری نے ابان علی کو دیکھا ہوا ہے اس لیے وہ آپ سے ملا، آپ وہ نہیں نکلے تو اس نے اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا۔ یہاں کیمپس سے بھی پتہ کروایا۔ ابان علی کے کاغذات اس نے نکلوا کر دیکھے تو سارے راستے زریاب صاحب کی طرف جارہے ہیں۔ رات اس نے زریاب صاحب سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اسلم چوہدری سے کوئی بات نہیں کی۔ مجھے حکم دیا کہ میں اس کے پاس جا کر اسے مطمئن کروں“۔
”جب اس نے کاغذات دیکھ لیے، تو اب راز کس بات کا رہ گیا ہے۔ اسے دو اور دو چار کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا“۔
راز تو فاش ہو گیا، اب اطمینان کیا“۔میں نے انتہائی مایوسی سے کہا۔
”اور نہیں سرجی، میں نے اسے یہی باور کرانا ہے کہ آپ زریاب صاحب کے ایک مزارعے کے بیٹے ہیں۔ جس نے اپنے بیٹے کا نام ابان علی رکھا ہے۔ اسے الجھن میں تو رکھنا ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کو بھی زریاب صاحب نے بلایا ہے“۔
”کیوں خیرت ....؟“ میں نے جلدی سے پوچھا۔
”وہ کہہ رہے ہیں کہ جب ماہم شادی کے لیے راضی ہے تو پھر میں کیوں دیر کر رہا وہں۔ اب زیادہ سے زیادہ معاملہ ایک دو دن میں سامنے آجائے گا اور ماہم اگر متنفر ہو گئی تو سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ وہ اس موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں“۔
”مطلب....! اب مزید چوہے بلی کا کھیل نہیں چلنے والا“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی سر.... آپ نے کل غلطی کی، آپ کو اس کے ساتھ کورٹ میں شادی کرلینی چاہے تھی۔ اب ممکن ہے ماہم سوچنے پر مجبور ہو جائے اور اس کا ہاتھ آنا مشکل ہو جائے“۔
”سلیم، فرض کیا ماہم مجھ سے متنفر ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں کیا کرناچاہئے....“ میں نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
”یہی بات کرنے تو زریاب صاحب نے آپ کو بلایا ہے۔ ویسے اگر آج بھی آپ ماہم کر اس سے شادی کر لیں تووقت آپ کے ہاتھ میں ہو سکتا ہے“۔
”دیکھتا ہوں، مجھے کیا کرنا ہے“۔ میںنے اس گول مول سا جواب دیا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ان نئی اطلاعات نے میرے اندر ایک جولانی بھر دی تھی۔ مجھے کچھ دیر پہلے جندوڈا کی بات یاد آنے لگی کہ کھو جانے اور چھن جانے کا خوف ہی محبت کی بیلوں کو گہرا سبزرکھتا ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ میں یہ سوچ کر مسکرا دیا۔ مجھے ایک دم سے یہ اتعاءہو گیا کہ مجھے اب کیا کرنا ہے۔ اس کے لیے میں پوری طرح تیار تھا۔
l l l
اس دن کیمپس جاتے ہوئے پہلی بار میں نے اپنا کولٹ ریوالور ڈیش بورڈ سے نکال کر اس طرح اپنی گود میں رکھ لیا کہ اگر چشم زدن میں بھی مجھے ضرورت پڑے تو میں اسے استعمال کر لوں۔ نہ جانے کیوں سبزہ زاد سے نکلتے ہی مجھے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب میں اکیلا ہوں۔ کوئی میرے ساتھ نہیں ہے۔ کیمپس کے سارے دوست مجھ سے متنفر ہو چکے ہیں۔کیمپس میں تفتیش چل رہی ہے کہ میں اصل میں کون ہوں؟ ابان علی یا کوئی اور؟ زریاب انکل مجھے ناکام تصور کرتے اسلم چوہدری کے پاس وضاحت کے لیے سلیم کو بھیج رہے تھے۔ ماہم کو جب میری اصلیت کے بارے میں علم ہوتا تو ممکن ہے وہ فرخ چوہدری سے بھی زیادہ اپنا ردعمل ظاہر ہے۔ مجھے ؟؟؟ یہ کھیل پاٹی کی طرح میری مٹھی سے نکل گیا ہے۔ اب دوبارہ چلو بھرنا شاید ناممکن ہو۔ کیا میں نے واقعی غلطی کی جو ماہم کو دھوکا نہیں دیا۔ پکے ہوئے ایسے پھل کو جو خود جھولی میں آگرے“۔ کھانا بھی تو احمق پن ہے۔ کیا میں نے جو اخلافی تقاضے نبھائے وہ غلط تھے۔ مجھے بھی اس ظالم دنیا کے اصولوں کو اپنا کر اپنے دشمن کے ساتھ اس کی ہرشے کو ؟؟؟ دینا چاہئے تھا۔ میں یہی سوچتا ہوا تیزی سے کیمپس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ میں اپنی جگہ جو سوچ رہا تھا، وہ ایک الگ معاملہ تھا لیکن کیا میں زریاب انکل کے سامنے ایک ناکام شخص کے طور پر جاﺅں گا۔ ممکن ہے وہ مجھے لعن طعن نہ کریں لیکن میں انہی اپنی ناکامی کی وجہ کیا بیان کروں گا۔ کیا یہ کہہ سکوں گا کہ ماہم کو تو مجھ سے محبت ہو گئی تھی اور میں بھی لاشعوری طور پر اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ میں اپنی سوچوں میں الجھا ہوا۔ کیمپس جا پہنچا۔ وہاں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں کلاس لوں۔ اس لیے اپنے کلاس فیلوز کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ میں دراصل ایک دم سے نتہائی کا شکار ہو گیا تھا۔ ریوالور کا لاشعوری طور پر اپنی گود میں رکھنا، پھر ڈیپارٹمنٹ آتے ہوئے کمر کے ساتھ لگائے رکھنا۔ اپنے کلاس فیلوز میں آ کر بیٹھ جانا یہ ساری لاشعوری حرکتیں میرے اندر کے اضطراب اور تنہائی کا شاخسانہ تھیں۔ شاید اس کا عکس میرے چہرے پر بھی پڑ گیا تھا کہ میرے ایک کلاس فیلو بلا سل نے پوچھ ہی لیا۔
”ابان....! کیا بات ہے کوئی مسئلہ ہے کیا.... بڑے خاموش سے ہو“۔
”کیا پہلے میں شور ڈالا کرتا تھا“۔ باوجود کوشش کے میرے لہجے میں تلخی در آئی تھی۔
”نہیں، تم فریش نہیں لگ رہے ہو۔ تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ جیسے کوئی پریشانی ہے“۔ اس نے وضاحت کی۔
”ہاں یار، پریشانیاں تو بندے کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی کبھی کوئی“۔
”یہ تو ہے، ویسے بھی ماہم آج کل ڈیپارٹمنٹ نہیں آرہی، اس رنگ؟؟؟ کو وجہ بھی زیادہ ڈسٹرب کرتی ہے“۔ اس نے ہلکے سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو میں بھی ہنس دیا۔
”ہاں، ممکن ہے ایسا ہی ہو“۔ میں نے جان چھڑانے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملا دی تو وہ چہک اٹھا۔
”تو پھر اس ٹینشن کا علاج یہ ہے میری جانکہ ایسی ہی رنگین اپنے اردگرد اکٹھی کرلی جائے۔ مستقل نہ سہی عارضی طور پر ہی سہی.... ٹھہرو میں سا کا حل کرتا ہوں“۔
”کیا کرو گے....“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”یار....! اپنی چند کلاس فیلوز کے ساتھ ذرا آﺅٹنگ کر لیتے ہیں، گپ شپ ہو گی ، ہنسیں گے، کھیلں گے، کھائیں گے پئیں گے اور ڈسٹرینس ختم.... گاڑی لائے ہونا آج“۔
”ہاں گاڑی تو ہے.... لیکن....“ میں نے کہنا چاہا تو ہ تیز ی سے بولا۔
”تمہارے آنے سے پہلے ہم ایسا ہی پروگرام بنا رہے تھے۔ اب تو ڈن ہو گیا۔ تم دو منٹ یہاں بیٹھو۔ میں سب کو لاتا ہوں“۔ اس نے کہا اور میری سنے بغیر کلاس روم کی طرف چلا گیا۔
ہم چھ گاڑیوں میں تھے۔ ساتویں گاڑی کے لڑکے کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والے تھے۔ شہر کا نزدیکی پارک ہم نے انتخاب کیا تھا جہاں کچھ وقت گزرنے کا ارادہ تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اس پارک میں جا پہنچے۔ جو جس کے زیادہ نزدیک تھا، وہ ٹولیوں میں بکھر گئے اور میں ایک درخت کے ساتھ تنہا آبیٹھا ۔ دراصل ہی سوچنا بھی چاہتا ہوں اور اپنی سوچوں سے فرار بھی حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اصل میں میری ترجیح کیا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں۔ مجھے کیا خوف ہے۔ میں انہی غیر مرئی سوچوں سے الجھا ہا تھا کہ میرے سامنے زرکا آن کھڑی ہوئی۔ وہ میری طرف بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ فربہ مائل زرقا نے سفید شلوار کے ساتھ گہرے جامنی رنگ کی پیلے پھولوں والی قمیص پہنی ہوئی تھی۔ اﺅں میں سفید سپیراور اور سفید آنچل کا ؟؟؟ پر ڈالا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کریوں لگ رہا تھا۔ کہ یہ ابھی اپنے لباس سے باہر چھلک پڑے گی۔
”ابان....! مجھے نہیں لگتا کہ ماہم کے نہ ہونے سے تم اس قدر مجنون بن جاتے ہو۔ خیر سے تھوڑی سے جذائی برداشت کر لیا کرو“۔ بڑی بڑی آنکھوں، موٹے نقوش اور سرخ لبوں والی گوری چٹی زرقا کے لہجے میں کافی حد تک مزاح تھا۔
”آﺅ بیٹھو....! اب اس کی کمی تم پوری نہیں کر سکتی ہونا....“ میں نے بھی مذاق میں کہا تو وہ میرے قریب بیٹھتے ہوئے بولی۔
”وہ .... وہ ہے اور ہم .... ہم ہیں۔ اگر اپنی جگہ قلو قطرہ ہے تو ہم اپنی جگہ نور جہاں ہیں“۔ زرقا نے کچھ اس انداز میں کہا کہ میں با ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔ تب وہ میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”ہنستے ہوئے اچھے لگتے ہیں.... ہنستے رہا کریں“۔
”یار....! یہ حالات جو ہوتے ہیں یہ بندے کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں“۔ میں نے کافی حد تک سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”میں تو ایک بات جانتی ہوں، یہ جو یقین ہو تا ہے نا.... یہ ہمارا بڑا محافظ ہوتا ہے ساری الٹی سیدھی سوچوں کو ہمارے دماغ سے باہر رکھتا ہے۔ اگر آپ کو خود پر یقین ہے تو ڈونٹ وری.... سب ٹھیک ہو جائے گا“۔ وہ بھی سنجیدیگی سے کہتی چلی گئی تھی۔
”اچھا تو میں اب سمجھا تمہاری صحت کا راز“۔
”نہیں اس میں کچھ کھانے پینے کا بھی دخل ہے، آخر کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں“۔ وہ ہنتے ہوئے بولی تو میں بھی ہنس دیا۔
وہ کافی دیر بیٹھی اسی ہی پر مزاح باتیں کرتی رہی۔ یونہی کلاس فیلوز کے بارے اردگرد لووگں کے بارے اور حالات کے بارے اس کی سب سے بڑ ی خوبی، اس کی بے تکلفی تھی۔ ہم یونہی گپ شپ کرتے رہے، ہمارے پاس ایک لڑکی اور لڑکا بھی آ کر بیٹھ گے تو باتوں میں زیادہ گرم جوشی آگئی۔ مجھے بہت اچھا لگنے لگا۔ بہت عرصے بعد یوں گپ شپ کررہا تھا ۔ پھر سب کھانے پینے کے لیے اٹھ کر ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ کچھ دیر ہلا گلا رہا اور میں اسے جو ٹینشن میں تھا، وہ کافی حد تک ختم ہو گئی تو میں پرسکون سا ہو گیا اور ان میں دلچسپی لینے لگا۔
دوپہر کے بعد جب واپس ہوئی تو زرقا میرے ساتھ پسنجر سیٹ پر تھی اور پچھلی نشست پر ٹھنسی ہوئیں چار لڑکیاں یہ بلال کی ترتیب تھی، اس نے سب کو بٹھایا تھا۔ ہونا یہ تو چاہئے تھا کہ وہ چند ڈے سکالز کو میرے ساتھ بٹھا دیتا اور میں انہیں ڈراپ کر کے سبزہ زار چلا جاتا، لیکن طے یہی ہوا تھا کہ ڈیپارٹمنٹ سے ہ کر یہی واپس گھروں کو یا ہاسٹل جائیں گے۔ مقصد صرف یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزار لیں۔ ہم یونہی ہنستے بولتے ڈیپارٹمنٹ واپس چلے گئے۔ وہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر جب ہم واپس جانے لگے تو زرقا بھی میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
”آپ مجھے ڈراپ کر دیں گے؟ پوائنٹ آنے میں تو ابھی وقت ہے....“
”چلو، ڈراپ کر دوں گا“۔ میں نے خوشدلی سے کہا اور پارکنگ کی طرف چل دیا۔ ہم دونوں بیٹھے اور میں نے گاڑی بڑھا دی۔ میں ابھی پارکنگ سے مین روڈ پر نہیں آیا تھا کہ ماہم کی کال آگئی۔ مجھے لگا جیسے باد بہاری آگئی ہو۔ اس کے ساتھ طویل بحث کے بعد سے اب تک میرے خیالات میں بڑی تبدیلی آچکی تھی۔ میں نے دائیں ہاتھ سے اسٹرنگ سنبھالا اور بائیں ہاتھ سے فون ریسور کرتے ہوئے کہا۔
”کیا حال ہے، ڈیپارٹمنٹ نہیں آئے ہو“۔
”میری کل سے پاپا کے ساتھ بہت بحث چل رہی ہے.... خیر اس وقت کہاں ہو؟ “ اس نے پوچھا۔
”میں کیمپس میں ہوں.... اور واپس سبزہ زار جارہا ہوں“۔ میں نے جواباً کہا اور گاڑی مین روڈ پر لے آیا۔
”جتنی جلدی ممکن ہو سکے سبزہ زار چلے جاﺅ اور اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔۔ مجھے پاپا کے تیور اچھے نہیں لگ رہے ہیں، وہ بہت غصے میں ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے انہیں آپ کے نام سے چڑ ہو گئی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ شام ہوتے ہی سبزہ زار آﺅں،پھر تفصیل سے ہر بات بتاﺅں گی“۔ یہ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ میری دائیں طرف سے ایک فور ویل جیپ میری سائیڈ دبانے لگی۔ خطرے کا شدید احساس میرے اندر سرایت کر گیا۔ میں نے ایک دم سے فون پھینک دیا۔ بائیں ہاتھ سے اسٹرنگ سنبھالا اور دائیں ہاتھ سے ریوالور نکال لیا۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ زرقا نے فون اٹھای اور میرے کان سے لگا دیا۔ ماہم پریشانی میں کہہ رہی تھی۔ ”کیا ہوا، جواب نہیں دے رہے ہو“۔
”ماہم....! خطرہ لگ....“ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ کار کو شدید دھمکا لگا۔ کسی نے پیچھے سے ٹکر ماری تھی۔ میں بُری طرح لڑکھڑا گیا۔دائیں جانے سے سائید ماری گئی۔ کوئی چاہتا تھا کہ میں اپنی کار سمیت الٹ جاﺅں۔ میں نے ایک دم سے رفتار بڑھائی تو رزقا کی چیخ نکل گئی۔ وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی تھی، لیکن اس وقت زرقا پر توجہ دینے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں تھا۔ میرے ساتھ وہ گاڑیاں بھی اس رفتار سے آگے بڑھیں۔ جیسے میں نے دائیں طرف گاڑی سے گن کی ٹال برآمد ہوتے ہوئے دیکھا۔ اسی وقت میں نے ریوالور نکالا اور فائر جھونک دیا۔ یکے بعد دیگرے میں نے دو فائر کئے اور پھر تیسرا فائر میں نے اس کے ٹائر پر کیا۔ ایک دھماکا ہوا وہ فورویل لڑکھڑا کر ایک طرف الٹ گئی۔ تبھی پیچھے سے ٹائرنگ ہونے لگی۔ فائرنگ گاڑیوں کا مشور زرقا کی چیخیں ان سب کے درمیان اوسان بحال رکھنا ناممکن ہو رہا تھا۔ اچانک گاڑی کا پچھلا شیشہ چھنا کے سے ٹوٹا اور گوئی میرے دائیں کاندھے میں پیوست ہو گئی۔ شاید وہ برسٹ تھا کیونکہ اس بار زرقا کی چیخ زیادہ دہشت ناک تھی۔ یہ وہ لمحات تھے جب کار پر میرا کنٹرول نہیں رہا اور گاڑی لڑکھڑتی ہوئی بائیں جانب فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ میرا دماغ نہ جانے کن کن سوچوں سے ابلنے لگا۔ سب سے زیادہ یہی سوچ حاوی تھی کہ میرے دشمن جو کوئی بھی ہیں۔ میرے بے بس ہوتے ہی مجھے گولی مار دیں گے۔ میں حرکت کرنا چاہتا تھا لیکن بے بس ہو گیا۔ میرادماغ اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا اور پھر میں ہوش و حواس سے بے گانہ ہو گیا۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *