Wednesday 30 August 2017

حصار قسط نمبر 1

قسط نمبرا

حصار


امجد جاوید

                لفظ جادو میں ہی جادو ہے۔جادو ایک خطرناک اور منفی قوت ہے اور جادو کی کوکھ حسد ، کینہ اور بغض سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن جہاں محبت کی الوہی طاقت اور یقین موجودہو، وہاں جادو اثر انداز نہیںہوتا۔محب اپنے محبوب کی جدائی پر سمجھوتہ توکرلیتا ہے مگر محبوب کے دُکھ کو برداشت نہیںکرسکتا۔ یہی سچی محبت کا معیار ہے۔سچی محبت جب قوت بنتی ہے تویقین کے ساتھ سارے شیطانی حصار توڑ دیتی ہے۔ممکن اور ناممکن کی کشمکش ،یقین، بھروسہ اورحوصلے سے گندھی ایک پر تجسس ،حیرت انگیزاور جادو اثر داستان
………………………………………………………………………

اس دن ثانیہ علی اپنی ہی منگنی پرخود ہی حیران ہوتی چلی جا رہی تھی ۔ سب 
کچھ آناً فاناً ہو جائے گا۔ یہ اسے اب تک یقین نہیںہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے ذیشان احمد کو چاہا اور وہی اپنے ماما پاپا کے ساتھ منگنی کرنے ان کے شاندار لاﺅنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خوشگوار سی اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ بیوٹیشن اسے تیار کرکے آخری ٹچ دے رہی تھی ۔ لاﺅنج میں گونجتے ہوئے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔اسے یہ سب خواب کی مانند لگ رہا تھا۔
اس بنگلے کے مکینوں کی امارت کا اظہار شاندار لاﺅنج تھا۔وہاںبیٹھے چند مہمان باتیں کر رہے تھے ۔کسی بات پر قہقہے کی بازگشت ابھی ختم نہیںہوئی تھی کہ ثانیہ علی کے پاپا مراد علی نے انتہائی سنجیدگی سے سامنے بیٹھے ذیشان کے پاپا، چوہدری نذیر احمد کی طرف دیکھ کر کہا
” جی یہ توبہت اچھی بات کہی آپ نے ، لیکن میں نے توایسا نہیںسوچا تھا ۔ ہماری اکلوتی بیٹی کی منگنی اور وہ بھی اتنی سادگی سے؟ آپ چند دن رُک جاتے نا تو بہت دھوم دھام سے یہ منگنی کر لیتے ۔ بڑی ساری پارٹی ارینج کرتے جس میں سبھی دوست بلاتے۔
اس پر نذیر احمد نے اپنا کوٹ درست کرتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا
” مراد علی صاحب، ہمیں اپنے بچوں کی خوشیاں چاہئیں،منگنی اگر سادگی سے ہو گئی تو کیا ہوا ۔ شادی ،دھوم دھام سے کر لیںگے۔ مجھے کچھ عرصہ کے لئے لندن جانا پڑ گیا ہے ورنہ ، ویسے ہی ہوتا ، جیساآپ سوچ رہے ہیں۔
” آپ نے تو قریبی ملنے والوں کو بھی نہیں بلانے دیا۔“ مراد علی نے ہنستے ہوئے کہا تو چوہدری نذیر احمد قہقہ لگاتے ہوئے بولا
” اگر ایک کو بھی بلا لیتے تو نجانے کتنے ناراض ہو جاتے ، فی الحال میں یہ افورڈ نہیں کر سکتا،ہم اور آپ ہیںنا ، بہت ہیں منگنی کے لئے۔
انہوں نے کہا تو چند لمحوں کے لئے ان میں خاموشی آ گئی ۔ اسی خاموشی کو ذیشان کی ماما بیگم الماس نے توڑا    
یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ،کہاں ہے ثانیہ ؟ اُسے بلائیں،رسم ادا کریں۔
اس پر ثانیہ کی ماما بیگم طلعت نے اندر کی جانب دیکھتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں کہا
بس ابھی آتی ہی ہوگی ۔“لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ بیوٹیشن کے ساتھ ثانیہ اندر سے ہولے ہولے آ تے ہوئے دکھائی دی۔ وہ انہی کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی تبھی بیگم طلعت نے بے ساختہ کہا ،”لو یہ آ گئی ۔
سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے۔ پہلی بار سب نے اسے تیار ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اس جہان کی لگ ہی نہیں رہی تھی۔کیا روپ اُترا تھا اس پر ۔ ہر ایک کی نگاہ میں اس کے حسن کی ستائش تھی۔ ذیشان تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ آج تک اس نے وہ عام سی میک اپ سے بے نیاز ثانیہ کو دیکھا تھا۔ وہ تو ویسے ہی اس پر مر مٹا تھا۔ یہاں تو بن سنور کر وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔ اس کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ بیوٹیشن نے اسے لے جا کر ذیشان کے ساتھ صوفے پر بٹھا دیا۔
” ماشا اللہ ، چشم بددرو، کیا پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔“ بیگم الماس نے یوں بے ساختہ کہا جیسے اس سے تعریف کئے بنا رہا نہ گیا ہو ۔
” تو چلیں پھر ، کریں منگنی کی رسم ۔“ الماس بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ بیگم طلعت نے بے چین سی ہو کر داخلی دروازے کی جانب یوں دیکھا جیسے اسے کسی کی آ مد کا انتظار ہو ۔ انہی لمحوں میں باہر پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آ ئی ۔ سب باہر کی جانب دیکھنے لگے کہ اس وقت کون آ سکتا ہے۔ تبھی بیگم طلعت تیزی سے داخلی دروازے کی جانب بڑھی۔ دوسری طرف سے ادھیڑ عمر بیگم ثروت اپنی نند فاخرہ کے ساتھ لاﺅنج میں داخل ہوئی ۔
اچھا ہوا تم آ گئی ہو ۔ بس منگنی کی رسم کرنے ہی والے ہیں۔“ بیگم طلعت نے پر سکون لہجے میں کہا۔ اس پر بیگم ثروت شکوہ بھرے لہجے میں بولی،” مجھے توجیسے ہی اطلا ع ملی ، میں فوراًآگئی ۔ شکر ہے دیر نہیں ہوئی، تم لوگوں نے تو مجھے یوںبے خبر رکھا،پتہ ہی نہیں لگنے دیا اس منگنی کا۔
ان کی باتوں کے دوران مراد علی ان کے قریب آ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار واضح تھے۔ تبھی بیگم طلعت نے اپنے شوہر مراد علی کی طرف خجالت سے دیکھا ۔ پھر ثروت کی جانب دیکھ کر یوں شرمندہ سی بولی جیسے اپنے شوہر کو سنا رہی ہو۔
” میں اپنی بہن کو تھوڑا بھول سکتی ہوں ، پر کیا بتاﺅں ثروت اس منگنی کا، یو ں سمجھو سب اتنا افراتفری میںہوا ، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
تم نے یہ تک نہیںبتایا، کن لوگوں میں رشتہ کر رہی ہو؟ اتنی راز داری؟“ بیگم ثروت نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا تومراد علی کے چہرے پر خفگی پھیل گئی ۔ جسے دیکھ کربیگم طلعت نے گھبرا تے ہوئے کہا
ثروت ، چل آ ، منگنی کی رسم ادا کریں، پھر باتیں تو ہوتی رہیں گیں۔
ان دونوں بہنوں کے درمیان جتنی دیر تک باتیں ہوتی رہیں، مراد علی انتہائی ناپسندیدگی سے انہیں دیکھتا رہا ۔ جبکہ پھوپھو فاخرہ بے نیاز بنی ان تینوں کو اپنی نگاہوں سے یوں تولتی رہی جیسے سب کے اندر تک کو ٹٹول لینا چاہتی ہو ۔ فاخرہ نے اپنی تیز نگاہوں مراد علی کو یوں دیکھا جیسے اس کے دل میں انتہائی نفرت ہو اور اس کا رویہ بھانپتے ہوئے اپنی تذلیل محسوس کر رہی ہو ۔اس کی نگاہوں سے غصہ چھلک رہا تھا۔ وہ تینوں پلٹ کر مہمانوں کی جانب چلے تو فاخرہ بھی ان کے پیچھے چل پڑی ۔اس کے اندر غصہ ابل پڑا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ یہیں مراد علی کو ذلیل کر کے رکھ دے ۔ وہ یہیں اس کی حقارت کا بدلہ چکا دینا چاہتی تھی ۔
 ذیشان کے چہرے پر خوشی دمک رہی ہے ۔ الماس بیگم نے اپنے پرس میں سے سرخ ڈبیہ نکال کر ذیشان کی جانب بڑھا دی ۔اس نے ڈبیہ پکڑ کر کھولی۔ اس میں چمکتی ہوئی ہیرہ جڑی انگھوٹھی نکال کر ثانیہ کی جانب بڑھائی ۔ وہ ایک دم سے گھبرا گئی ، پھر حیا بار انداز میں نزاکت سے ہاتھ آ گے کر دیا ۔ ذیشان نے بڑے نازک سے انداز میں ثانیہ کا ہاتھ پکڑا اور وہ انگوٹھی ثانیہ کی انگلی میں پہنا دی ۔ بیگم طلعت نے ثانیہ کے آگے ایک انگھوٹھی کر د ۔ ثانیہ نے وہ ذیشان کو پہنا دی۔ سبھی ایک دوسری کو مبارک باد دینے لگے ۔جب وہ ایک دوسرے کومبارک باد دے چکے تو مہمانوں کو کھانے کی میز کی طرف جانے کا کہا گیا۔ وہ سب ادھر بڑھ گئے۔ تبھی مراد علی نے اپنی بیوی کے قریب جا کر غصے اور حقارت سے پوچھا
” کیاان لوگوں کو، تم نے بلایا ہے؟
اس کا واضح اشارہ فاخرہ اور فرحت کی طرف تھا۔ تبھی بیگم طلعت نے خفگی سے اپنے شوہر کو دیکھا اور انتہائی سنجیدگی سے یوں بولی جیسے خود پر قابو پاکر کہہ رہی ہو ۔
ہاں میں نے بلایا ہے ۔ لوگ ہوں گے تمہارے لئے .... وہ بڑی بہن ہے ۔میری سگی بڑی بہن،میرے خون کا رشتہ ہے وہ ۔ سمجھے آپ ۔“ وہ باوجود کوشش کے اپنے لہجے سے غصہ اور طنز چھپا نہ پائی تھی ۔مراد علی نے غصے میں دوسری جانب دیکھا اور مہمانوں کی جانب بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد سبھی میز پر بیٹھے ڈنر میں مصروف تھے ۔ان کے درمیان خوشگوار انداز میں باتیں چل رہی تھیں۔
بیگم فرحت نے جیسے تیسے تھوڑا بہت کھایا اور فاخرہ کو لے کر چل دی ۔وہ جتنی دیر بھی وہاں رکی ،اسے اپنے سینے پر بوجھ ہی محسوس ہوا تھا۔اس کے من میں کیا چل رہا تھا ، یہ اس نے ذرا سا بھی محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔ دل پر پتھر رکھے وہ اپنی بہن اور اپنی بھانجی کی خوش میں شامل ہو گئی تھی۔ لیکن یہ اس کا دل ہی جانتا تھا کہ وہ اندر سے کس قدر لہو لہو ہو رہی تھی۔
وہ جانے کے لئے پورچ میں آ ئی تو اس کے پیچھے ہی طلعت آ گئی ۔ اس نے مٹھائی کی ٹوکری اور پھول دیتے ہوئے دکھی سے دل کے ساتھ کہا
” ثروت۔! میری بہن دعا کرنا،میری ثانیہ کے لئے۔
” میری بھی بیٹی ہے وہ ،اللہ اسے خوشیاں نصیب کرے ، میری تو یہی دعا ہے ۔“ بیگم طلعت نے کہا اور کار میں بیٹھ گئی ۔ فاخرہ پہلے ہی بیٹھ چکی تھی۔اسے یہ سب فارمیلٹی لگ رہا تھا۔جن کے دل میں کچھ اور زباں پہ کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ ڈرائیور نے کار بڑھا دی ۔
 ایک ہی شہر میں رہنے والی دونوں بہنیںبیگم ثروت اور بیگم طلعت کے درمیان ایک ان دیکھا فاصلہ پیداہو گیا ہوا تھا۔ یہ فاصلہ صرف اور صرف مراد علی کی نفرت نے پیدا کیا تھا۔کوئی وقت تھا ، جب بیگم ثروت کا شوہر زندہ تھا۔اس کا شمار شہر کے بڑے کاروباری لوگوںمیں ہوتا تھا۔ تب یہی مراد علی اس کے ہاں کام کرتا تھا۔ انہیںمراد علی پر اندھا اعتماد تھا۔یہ اعتماد اس قدر بڑھا تھا کہ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے شعیب کی منگنی ان کی بیٹی ثانیہ سے کر دی تھی ۔ ظاہر ہے اس فیصلے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ان کا یہ تعلق آئندہ نسل تک بھی جاری رہے ۔ بہت اچھے دن گذرتے چلے جا رہے تھے ۔ لیکن جیسے ہی اس کے شوہر ایک حادثہ میں اس جہاں سے گئے ، مراد علی نے نگاہیں پھیر لیں۔شعیب ابھی اس قابل نہیںتھا کہ اپنے باپ کا بزنس سنبھال سکے ۔ یہ بہت بڑا جھٹکا تھا ۔ بزنس دنوں میں ختم ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ مراد علی نے اپنا بزنس شروع کردیا۔سبھی یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس نے کیا کھیل کھیلا ہے ۔ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔تاکہ اپنا بزنس بنا سکے۔
بیگم ثروت کو مراد علی کی اس محسن کشی کا دکھ تو تھا ہی لیکن یہ امید نہیںتھی کہ وہ ان سے یوں نفرت کرے گا ۔وہ شاید سب کچھ بھول جاتی اگر مراد علی تھوڑا بہت رشتوں کا خیال کر لیتا۔ بیگم ثروت اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا بیٹا شعیب پورے دل سے ثانیہ کو چاہتا ہے ۔ یہ محبت اس لئے بھی بڑھ گئی تھی کہ ثانیہ اس کی منگیتر ہے ۔ وہ اس سے جلد از جلد شادی کرلینا چاہتا تھا ۔وہ اپنے بیٹے کی محبت سے مجبور ہو کر ثانیہ کی شادی بارے بات کرنے ان کے گھر جا پہنچی تھی ۔ لیکن وہی ہوا جس کا اُسے اندیشہ تھا۔ اس کی بہن تو چاہتی تھی کہ یہ رشتہ ہو جائے ۔ لیکن مراد علی نے انتہائی حقارت سے انکار کر دیا تھا۔اس سے رشتے ناطے کی جو تھوڑی بہت امید تھی ، وہ بھی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ گذرتے وقت کے ساتھ کبھی کبھار وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے سے مل لیا کرتی تھیں ۔ بس یہی ان کے درمیان خون کا تعلق رہ گیاتھا۔ ورنہ اگلی نسل میں یہ تعلق بھی نہیں رہنے والا تھا۔
بیگم ثروت جانتی تھی کہ شعیب اب تک ثانیہ کو نہیں بھول پایا ۔مراد علی نے اسے طعنہ دیا تھا کہ وہ ہے کیا ، جس کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ وقت بھول گیا تھا جب اس کے پاس کچھ نہیںتھااور وہ ان کے ہاں ایک تنخواہ دار ملازم تھا۔لیکن وقت کی حقیقت یہی تھی کہ جب مراد علی نے یہ لفظ کہے تھے ، تب شعیب اپنے بچے کھچے بزنس کو سنبھالنے کی کوشش میں تھا جبکہ مراد علی اپنا بزنس مضبوط کرچکا تھا۔
بیگم ثروت چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی تھی۔ وہ اپنے اسی شاندار بنگلے میں تھی ، جو اس کے شوہر نے بنایا تھا۔ شعیب نے اپنا بزنس بہت پھیلا لیا تھا۔ دن رات کی محنت سے وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ مراد علی کے بزنس کو بھی پیچھے چھوڑ دے ۔ لیکن اس کے دل میں اب بھی ثانیہ کی محبت تھی ۔ وہ اب بھی ناامید نہیں تھا۔ لیکن اسے خبر نہیںتھی کہ ثانیہ کسی دوسرے کو پسند کر چکی ہے ۔
تھکی ہوئی بیگم ثروت لاﺅنج میں آکر ایک صوفے پر بیٹھ گئی ۔ ڈرائیور میز پر مٹھائی کی ٹوکری اور پھول رکھ کر پلٹ گیا تھا۔ تبھی پھوپھو فاخرہ بھی دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی سامنے ہی صوفے پرجا بیٹھی ۔ ان کے درمیان خاموشی رہی لیکن پھوپھو فاخرہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتی تھی ، اس لئے دکھ سے بولی
” اللہ قسم ،تھک گئی آج تو، ویسے ایک بات کہوں ثروت ، برا مت ماننا، یہ جوتیری بہن ہے نا، اس کا رویہ توٹھیک تھا، مگر وہ تیرا بہنوئی، دیکھا تھا اسے ، اللہ معاف کرے ، کتنی رعونت آگئی ہے اس میں۔ کیسے گردن اکڑائے ہو ئے تھا۔ بھول گیا سب کچھ، وہ وقت جب ....“           
ہاںفاخرہ ،وہ واقعی ہی بھول گیاہے، وہ کیا ، پتہ نہیںکون کون بھول گیا ہمیں۔ یہ تووقت وقت کی بات ہے ۔ ہوتا ہے ایسا۔دنیا داری ہے ۔“ بیگم ثروت نے ٹھنڈی سانس لے کر بے بسی سے کہا اس پرپھوپھوفاخرہ تنک کر بولی     
یہ جو آج اتنا بڑا بزنس مین بنا ہوا ہے نا، یہ جو کاریں بنگلے بنائے ہیںنا، سب میرے بھائی کی وجہ سے بنے ہیں، ورنہ آج بھی وہی معمولی ملازم ہی ہوتا۔یہ دولت بھی نا رشتے ناطے تک بھلا دیتی ہے۔
چل چھوڑ ، یہ تومیری بہن کے دل میں اب بھی میری محبت ہے، ورنہ کون کسی کو پوچھتا ہے۔ اپنے بھی پرائے بن جاتے ہیں۔“وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی
پرایا پن تو دکھایا تمہاری بہن نے بھی ، ارے ہوا تک نہیںلگنے دی منگنی کی۔ کہاں کر رہی ہے، کون لوگ ہیں، کیا ہم سے بھی اچھے ہیں وہ لوگ، خون کے رشتوں سے بھی؟“ وہ غصے میں بولی تو بیگم ثرو ت آہ بھر تے ہوئے دکھ سے بولی
بس میرے بیٹے کی قسمت میں نہیںتھا۔“         
 لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ شعیب داخلی دروازے سے اندر آ گیا ۔ وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھا۔ اس نے سامنے صوفے پر بیٹھی اپنی ماما اور پھوپھو کو دیکھا تو ٹھٹک گیا، پھر صوفے پر بیٹھتے ہوئے عام سے خوشگور لہجے میںپوچھا
کیا قسمت میں نہیںتھا ماما ؟ اور یہ آپ اداس سی کیوں بیٹھی ہیں، خیریت تو ہے نا ؟“اس کے یوں پوچھنے پر دونوں ہی نے ایک دوسرے سے آنکھ چرا لیں۔ جبکہ شعیب نے میز پر دھری مٹھائی اور پھولوں کو دیکھتے ہوئے پھر سے پوچھا ،”آج کہیں گئیں تھیں آپ ؟
ہاں بیٹا، میں تیری آنٹی طلعت کے ہاں گئی تھی۔ “ بیگم ثروت نے دبے ہوئے سے لہجے میں بتایا توپھوپھو فاخر ہ نے تیزی سے انکشاف والے انداز میں کہا
” ایسے کیوں نہیں بتاتی ہو بیٹے کو ، مراد علی نے اپنی لاڈلی بیٹی ثانیہ، کی منگنی کر دی ہے آج ، یہ مٹھائی اس کی منگنی ہی کی تو ہے۔
یہ لفظ تھے یا کوئی بم پھٹا تھا،شعیب یوںچونکا جیسے اسے شاک لگا ہو۔ یہ لفظ نہ ہوں بلکہ اسے موت کی سزا سنا دی گئی ہو ۔وہ حیرت سے کبھی ماں کو اور کبھی مٹھائی کے ڈبے کو دیکھنے لگا۔ پھر غصے اور بے بسی بھرے لہجے میں بولا
” ماما، یہ کیا؟ آپ نے مجھے بتایا تک نہیں، ایسے کیسے منگنی کر لی انہوں نے ؟آپ کو بھی پتہ ہے ثانیہ میری منگیتر ہے۔ وہ کسی دوسرے کی نہیںہو سکتی ۔
 اس کے یوں پوچھنے پربیگم ثروت چند لمحے خاموش رہی جیسے خود کو سمیٹ رہی ہو، پھر ہمت کر کے بڑے دکھی لہجے میں کہا
” منگیتر تھی ، وہ تب بھی نہیں رہی تھی جب انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ہم کیا کریں بیٹا، ان کی بیٹی ہے ۔
” ماما،وہ میرے بچپن کی منگیتر ہے ۔ میںاسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔“شعیب نے ضدی لہجے میںکہا توبیگم ثروت نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا
ارے بیٹا، بھول جا بچپن کے اس تعلق کو۔ تو خود بتا، کتنی بار کہا ہے ان سے ،اب نہ دیں رشتہ تو میںکیا کروں۔ آج کسی اور سے منگنی کردی ۔ اب بتاﺅ کیا کروں۔ بیٹی ان کی ہے۔وہ دیں یا....“
 انہوں نے کہنا چاہا لیکن پھوپھوفاخرہ بات کاٹتے ہوئے کہا               
اے ہے ثروت، کیا کمی ہے، ہمارے بچے میں، ماشاللہ وجیہ ہے ، اپنا بزنس کرتا ہے ، ان لوگوں سے زیادہ دولت ہے اب اس کے پاس، رشتے دار ہے، مراد علی پر اسی کے باپ نے احسان کئے ہوئے ہیں ۔کیوں انکار کیا، کوئی وجہ تو ہو؟
” میں کیا کہہ سکتی ہوں، اللہ جانے ان کے دل میںکیا تھا۔سب کچھ تمہارے سامنے ہی تو ہے۔“ بیگم ثروت بے بسی میں بولیں
” اصل میں یہ تیرا بہنوئی ہے نا ، وہ نہیں چاہتا ، وہ تو اسی وقت سے ہمارا دشمن ہے جب میرا بھائی زندہ تھا۔“ پھوپھو فاخرہ نے نفرت سے کہا توبیگم ثروت نے غصے میں بولی
بند کرو یہ سب ، یہ تم نے ہی اس کی طرف داری کرکے ،اس کا دماغ خراب کرتی ہو ۔ لڑکیاں کیا کم پڑ گئی ہیں، اس سے کہیں اچھی لڑکیاں....“
ماما ، بات دماغ خراب ہونے کی نہیں،میری انا کا سوال ہے ، میں ثانیہ کو کسی اور کا ہوجانے دوں ؟ ایسا ہو گا نہیں۔ناممکن ہے یہ ، دیکھتا ہوں کیسے ہو گئی منگنی اور اب کیسے کرتے ہیں ....شادی۔“وہ بپھرتے ہوئے بولا
خبردار.... اگر تم نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو، بھول جاﺅ اُسے ،اگر مجھے پتہ چل گیا، تم نے کوئی ایسا ویساکچھ کیا ہے.... تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے ، میںمر جاﺅںگی۔“بیگم ثروت نے گھبرا تے ہوئے کہا وہ چند لمحے یونہی کھوئی رہی پھر روتے ہوئے اٹھتی ہے اور وہاں سے اٹھ گئی ۔ پھوپھو اور شعیب ایک دوسرے کو دیکھا۔ شعیب کی حالت یوں ہو گئی تھی جیسے انہونی ہو گئی ہو ۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ پھوپھو اس کی طرف دیکھتی رہی پھر اس کے قریب جا کر بولی
” بیٹا۔! وہ ....“


(جاری ہے )

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *