امجد جاوید ، ”کن “ کی تلاش میں نکلا ہوا
دیوانہ
سید بدر سعید
امجد جاوید محبت اور تصوف کا دامن تھام کر لکھنے والے ادیب ہیں ۔ ان کے ناول پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ لکھتے وقت تصوف کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور پھر اپنے خیالات کو محبت کی دھیمی آنچ پر پکاتے ہیں۔ ہمارے کئی بڑے ادیبوں کا کہنا ہے کہ ناول پڑھنے کے لیے ماحول کا پرسکون ہونا ضروری ہے۔ امجد جاوید کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا ناول پڑھتے وقت انسان پر سکون ہو جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے اندر کا ماحول پر سکون ہو جاتا ہے اور جیسا کہ موسم انسان کے اندر ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ناول پڑھنے والا گرد و پیش کے ماحول سے بے خبر ہو جاتا ہے ۔پھریوں ہوتا ہے کہ صفحات الٹتے جاتے ہیں لیکن ہم پڑھنے کی بجائے فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔کردار ہمارے ارد گرد چلے آتے ہیں اور ہم کرداروں کی انگلی تھامے اسی ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ امجد جاوید شاعر بھی ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ آج کل کے اکژ نوجوان شاعروں کی طرح دھڑا دھڑ شاعری نہیں کرتے ۔ اب تک ان کی شاعری کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے ۔البتہ دیگر کئی ناول نگاروں کی طرح ان کے ناولوں کے لیے قارئین کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔امجد جاوید دھڑا دھڑ ناول لکھتے چلے جا رہے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر ایک باغی موجود ہے ۔ بالکل ویسا باغی جو محبوب کے کھو جانے کے انجانے احساس کے بعدکسی بھی عاشق کے اندر پایاجاتا ہے شاید امجد جاوید کو بھی اپنی کہانی کھو جانے کا ڈر رہتا ہے اور پھر یہ ڈر انہیں راتوں کو جگائے رکھتا ہے ۔ وہ ایک معصوم عاشق کی مانند راتوں کو جاگ جاگ کر محبت نامے لکھتے اور پھاڑتے چلے جاتے ہیں لیکن صبح سرخ آنکھیں لیے وہ کم از کم ایک ایسا صفحہ ضرور لکھ چکے ہوتے ہیں جس کی سچائی اور پاکیزگی پر انہیں مان ہوتا ہے ۔ پھر سیکڑوں صفحات پھاڑنے کے بعد لکھا گیا وہ ایک صفحہ ان کے ناول میں شامل ہو جاتا ہے ۔ اس سار ے عمل کے دوران خشک ہونٹوں کا انتظار کرتے کرتے سامنے پڑی چائے دم توڑ چکی ہوتی ہے ۔اپنے بدن کی گرمائش اور اپنا رنگ و روپ کھو جانے کے بعد اس کا برف کی مانند ٹھنڈا بدن شکوہ بھری نگاہوں سے اس ناول نگار کی طرف دیکھتا ہے جس کے انتظار میں اسے رات بھر اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا رہا اورپھر صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ جب یہ ناول نگار نیند سے بوجھل آنکھیں لیے اٹھتا ہے تو رات بھر سامنے میز پر اس کا انتظار کرنے والی چائے دم توڑ چکی ہوتی ہے ۔
میری امجد جاوید سے ایک طویل رفاقت رہی ہے طویل اس لیے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ جب خدا نے کائنات کی تخلیق کے وقت ”کن“ کہا تو تب ہماری دوستی نے جنم لیا تھا۔ مجھے یہ احساس تب بھی ہواتھا جب میں محبت سے آشنا ہوا اور پھر کوئی اپنا مجھ سے کھو گیا لیکن اس ”کن“ کا انجانا سا احساس اب بھی میرے ہمراہ ہے ۔ ”کن “انسان کو زیادہ دور نہیں جانے دیتا ۔ایک ان دیکھی زنجیر اسے روکے رکھتی ہے ۔ امجد جاوید ایک اور ”کن“ سے بھی منسلک ہیں ۔یہ ©”کن“ ان کے اور ان کی تحریر کے درمیان کہیں موجود ہے ۔ جس دن انہیں اس ”کن“ کا سرا مل گیا اس دن ان کے اکژ پڑھنے والے ان سے مایوس ہو جائیں گے کیونکہ پھر امجد جاوید ناول تو لکھیں گے لیکن اسے شائع کروانے کی بجائے سینے سے لگائے پھرا کریں گے۔ وہ ان کا آخری ناول ہو گا ۔ وہی ناول جسے لکھنے کے لیے انہیں صدیوں کا سفر کرنا پڑ رہا ہے اور جس کی تخلیق کے لیے یہ دھڑا دھڑ ناول لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔
امجد جاوید بہت بڑے تخلیق کار ہیں لیکن اس احساس نے ان کے اندر غرور کی بجائے عاجزی کے عنصر کو نمایاں کر دیا ہے۔ کبھی وہ بیک وقت کئی کئی حسیناﺅں کے محبوب ہو ا کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے اس ڈر سے اپنے اندر موجود محبوب کا خون کر دیا کہ محبوب رشتوں کو ٹھکرا کر کہیں بھی جا سکتا ہے ۔آگہی کے کسی لمحے ان پر ایک در ”وا “ ہوا اور انہیں جانے کس کی طنزیہ آواز سنائی دی۔ کوئی حکارت سے کہہ رہا تھا ” ”تم محبوب بنتے ہو؟ محبوب کا کام تو ٹھکرانا ہے ، تڑپانا ہے،اور پھر چھوڑ کر چلے جانا ہے ۔ کسی نے قہقہہ لگا کر کہا” بس اسی تعلق پر مان ہے تمہیں ؟ ارے رشتوں کو نبھانا ہے تو عاشق بنو ۔ ۔ محبوب نہیں “
اور اس دن امجد جاوید ان بڑے بڑے نامور لکھاریوں کی صف سے باہر نکل آئے جنہیں شہرت مغرور کر دیتی ہے اور جو ہزاروں کے محبوب ہوتے ہیں ۔ امجد جاوید محبوب سے عاشق بن گئے ۔ وہی عاشق جو محبوب کو پانے کے لیے جان سے گزر سکتا ہے ۔ جو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتا ۔ اسے واپس اسی در پرآنا ہوتا ہے جہاں سے اسے ٹھکرایا جاتا ہے اور پھر بالآخر وہ اپنے محبوب کو پا لیتا ہے ۔ بزرگ نہ ہوتے ہوئے بھی امجد جاوید میں بزرگی کا احساس نمایاں ہونے لگا ۔ اس سارے عمل کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ پہلے میں کسی معمولی ہوٹل پر بیٹھا چائے پیتے پیتے اس وقت چونک جاتا تھا جب امجد جاوید کے منہ سے کوئی ایسا جملہ سنتا تھا جس سے بزرگی چھلکتی تھی ۔اب میں اس وقت چونک جاتا ہوں جب امجد جاویدکی زبان سے کچھ عرصہ تک کوئی ایسی بات نہ سنوں جس سے بزرگی اور تصوف کو کشید نہ کیا جا سکتا ہو۔ پہلے مجھے لگتا تھا امجد جاوید ناول لکھتے ہیں اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سے ناول لکھوایا جاتا ہے ۔ کوئی نادیدہ ہستی سامنے بیٹھی بولتی چلی جاتی ہے اور امجد جاوید اسے سن کر لکھتے چلے جاتے ہیں ۔ اس قلبی واردات کو چھپانے کے لیے انہوں نے کچھ ایسے ناول بھی لکھے جس میں انہوں نے تصوف کو نکال کر” گلیمر“ ڈالنے کی شعوری کوشش کی لیکن انجانے میں وہ ایسے ناولوںسے بھی محبت کے اصل جذبات اور تصوف نہ نکال سکے ۔اگر ان کے ایسے ناولوں میں سے پاکیزہ محبت اور تصوف میں بھیگے جملوں کو الگ کیا جائے تو الگ سے ایک چھوٹی کتاب بن سکتی ہے لیکن پھر وہ ناول ان جملوں کی غیر موجودگی میں عبرت ناک موت کا شکار ہو جائے گا ۔
میری دعا ہے کہ امجد جاوید ابھی کچھ عرصہ تک اس ”کن“ کی تلاش میں لگے رہیں جس کا پہلا سرا ان کے ناولوں کے درمیاں کہیں گم ہے ۔ کیونکہ جس دن ان کے ہاتھ ”کن“ کا وہ سرا لگا اس دن یہ اپنا آخری ناول لکھنے لگیں گے ۔ ایک ایسا ناول جو کہیں بھی شائع نہ ہو گا ۔ امجد جاوید کے ساتھ ہی ان کی قبر میں اتر جائے گا ۔ یا پھر امجد جاوید کہیں گم ہو جائیں گے اور شہر کے لوگ ایک ایسے دیوانے کو دیکھا کریں گے جو کاغذوں کا پلندہ سینے سے لگائے ”انا الحق“ کے نعرے لگاتا پھرے گا اور حاکم وقت فتنہ خلق خداکے ڈر سے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے موت کی سزا سنا دے گا۔ میں نے پہلی بار کوئی سیکولر ملنگ دیکھا ہے۔یا پھر ملنگ ہوتا ہی سیکولر ہے؟ خدا جانے۔
No comments:
Post a Comment